انتخابی اصلاحات پہ پس و پیش کی اطلاعات

بدھ 9 جون 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ووٹ کٹا ہوا تھا اور اندراج کے خانے میں انگوٹھا سجا   ہوا تھااور درست شناختی کارڈ نمبر دیکھ کے ایک بزرگ پولنگ اسٹیشن کے باہر سائے میں درخت سے ٹیک لگا کے حسرتیں من میں جگائے اپنی مرحومہ بیگم کی دید کو بیٹھ گئے جو امسال بھی اپنا حق رائے دہی کے استعمال کے لئے آسمانوں سے اتاری گئی تھی۔ پچھلی دفعہ تو شاید آنکھ لگ گئی یا دھیان ادھر ادھر ہو گیا تھا اور وہ وصل کی نعمت سے محروم رہ گئے تھے لیکن اس دفعہ مصمم ارادہ کئے ہوئے تھی کہ ملے بغیر نہیں جائیں گے۔

یہ کہنے کو تو حقیقتوں سے دور کی بات لگتی ہے لیکن اس میں چھپی ایک سچائی بھی ہے جو بار ہا مطالبہ کر رہی ہے کہ اس جھوٹی امید اور آس کی بجائے  انتخابی اصلاحات  کی جائیں تاکہ روز روز کی دھاندلی کے سائے ایک شفافیت کی سحر کو جنم دیں اور اصل مستحق امیدوار سامنے لائے جائیں۔

(جاری ہے)

ہمارا انتخابی نظام تو کچھ یوں ہے کہ الیکش نتائج سے گھنٹوں پہلے میاں صاحب اپنی کامیابی کی تقریر سے فارغ ہو کے سونے کی تیاری میں مصروف تھے کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔

مقناطیسی سیاہی کی کشش  بھرے اجالوں میں اپنا کام دکھا چکی تھی اور آخری امید آر ٹی ایس سسٹم بھی حسب منشا کام  چھوڑ چکا تھا -صبح جب اٹھے تو ان کی خواہش کے مطابق دو تہائی اکثریت بھی حاصل تھی اور ووٹ کو عزت بھی ملی ہوئی تھی۔ میاں صاحب کے چہرے کی طمانیت بتا رہی تھی کہ ان کو وہ باری قرار واقعی مل چکی تھی جس کی یقین دہانی انہیں 2008ء کے انتخابات سے پہلے ہی کرائی گئی تھی اور اس کے لئے ان پہ لگی ہر قدغن پچھلے پانچ برسوں میں قانون کے کالے پنجوں نے دھو دی تھی۔

اب راستہ تھا اور حکمراں خاندان کی حکمرانی تھی۔مخالف جماعتیں دھاندلی کا شور مچاتی سڑکوں پہ تھیں اور ایک دھرنے کے لئے صف آرا تھیں۔ جسٹس نصر الملک صاحب کے بروقت انصاف اور رپورٹ نے انتخابی تھیلوں میں اخبارات اور ردی کو تو مانا لیکن منظم دھاندلی کے ثبوت کی نفی کرتے ہوئے میاں صاحب کی حکومت اور حکمرانی کو دوام بخشا- دوام کے پردے میں چھپی ہوئیں شرائط سے انحراف اور پانامہ کے لگے داغ    "کیوں نکالا  " کی صداؤں میں ڈھلے تو میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت کے باوجود نیب و انتخابی اصلاحات میں ترامیم نہ کر سکنے کی غلطیاں کھلنے لگیں۔

جب ایکسٹینشن کی باری آئی تو لندن سے بقول خواجہ آصف صاحب کے حکم آیا کہ یار کے در پہ لیٹ اور لپٹ کے بھی اسے منایا جائے اور بلا مشروط وہ سب کچھ کیا جائے جو اس کی مرضی ہے ۔ در یار پہ پلکوں سے دستک دیتے میاں صاحب جب مراد بر  نہ آنے پہ بر انگیختہ ہوئے تو غبار گوجرانوالا میں نکلا اور اب چھوٹے میاں صاحب جو بڑے میاں جی کی اجازت کے بغیر پانی نہیں پیتے درپردہ  بڑے میاں صاحب کی مفاہمت بھری سیاست کو  ملک میں رائج کرنے کے لئے  ان کے پاؤں پکڑنے لندن جانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

تکنینکی بنیادوں پہ سدا خود کو سچا ثابت کرنے والے میاں صاحبان کو امید ہو چلی ہے کہ وہ پھر چن لئے جائیں گے اس لئے وہ انتخابی اصلاحات میں تبدیلی کے لئے  حکومت سے مل بیٹھنا نہیں چاہتے  تاکہ جب ان پہ نظر کرم ہو تو پھر وہی آر ٹی ایس اور مقناطیسی سیاہی ہو جو ہما ان کے سر بٹھا سکے۔  ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے اور ووٹ چوری کے الزامات سے اپنی احتجاجی مہم سجانے والے اسی پرانے  چور طریقہ ء انتخابات پہ  ہی کیوں مصر ہیں سمجھ سے بالا تر ہے -  اسی دقیانوسی طریقے سے انتخابات ہوں گے تو کیا ضمانت ہے کہ سب سمیت آپ بھی انتخابی نتائج مان لیں گے سوائے اس کے کہ اگر جیت آپ کی ہو تو-
موجودہ وزیر اعظم کی کامیابی کی رات بھی تو آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا  اور وہ اس آر ٹی ایس کے پیچھے ان سب رموز سے واقف ہیں جو سلطانی کی نوید سناتا ہے - وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ کسی طرح اس جھوٹی لائف لائن کو کاٹ دیا جائے لیکن اگلی حکومت کے امیدوار نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا نظام آئے کہ جس کو سمجھتے اور اس میں سے کامیابی کی کنجیاں ڈھونڈتے  پیا رت ہی بیت جائے- وگرنہ اگر بدلتے نظام سے ان  کو کچھ خدشات ہیں تو اسمبلی میں بحث کے دوران انہیں خوب آشکار کیا جائے کہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ ان کو بریانی کھلا کے ٹٹی کی اوجھل کونسا شکار  کیسے کھیلا جاتا ہے- سب کچھ اگر روز روشن کی طرح آفتاب کے جلو میں سامنے ہو تو سینٹ کے انتخابات کی  مانندرات کی تاریکی میں ملکی قانون بنانے والوں کی خرید و فروخت اور بعد میں الزامات کے باعث اتحاد ا اتفاق اور  حکومت مخالف اکٹھی تحریک کی  ہنڈیا بیچ چوراہے نہیں ٹوٹتی- بیرونِ ملک بستے پاکستانی میری نظر میں بہتر پاکستانی ہیں اور ہر آڑے وقت میں انہوں نے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے - ہر حکومت نے ان کو حق رائے دہی کے سہانے خواب دکھا کے خوب  لبھایا ہے لیکن جب بھی وقت آیا ہے ہر کسی نے انہیں ایک طرف رکھ کے اپنی سیاسی قوت کے ترازو  کو تولا ہے- ان کی وفاداری پہ انگلیاں اٹھائی ہیں ۔

اب اگر انہیں یہ حق ملنے کے واضح اشارے ملے ہیں تو پھر سیاسی فوائد اور ثمرات  نے سیاست دانوں کو آ گھیرا ہے اور تارکین وطن کو مخالفت کا سامنا ہے۔ ایک بد اعتمادی کی فضا ہے - انتخابات  کے لئے مردم شماری ایک ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری اور کراچی کی عوام کے تحفظات  میں کس طرح آنکھیں بند کی گئی ہیں ایک سوالیہ نشان ہے۔

سندھ میں کراچی اور دیہی سندھ کے انتخابات ، سندھ حکومتی پارٹی کی کراچی میں متزلزل پوزیشن شاید اسے بھی پسند نہیں ہے کہ کراچی کو اس کی آبادی کے مطابق انتخابات میں نمائندگی  اور نشستیں  دے کر خود کو سندھ میں  خود ہی چیلنج کیا جائے- اٹھارویں ترمیم کے بعد شاید دو پارٹی نطام میں پنگ پونگ سیٹ اپ پہ  مفاہمت کرنے والے کہ جس میں اگر آپ حکومت میں نہیں ہیں تو اپنے صوبے کی حکومت میں پانچ سال  کی حکمرانی کے مزے لوٹیں کب چاہتے ہیں کہ ان کی اپنے صوبے میں گرفت کمزور ہو۔

ان کے لئے کراچی میں مردم شماری وہ زہر ہے جو انہیں نہیں پینا۔ انتخابی اصلاحات صرف مشین سے  انتخابات کی تبدیلی کی بات نہیں ہے یہ ان سالوں کی محنت پہ پانی پھیرنے کے مترادف ہے جس کے تحت  الیکشن کمیشن کا صوبوں  پہ کم ہوتا انحصار اور صوبائی  حکومتوں  کے ماتحت اس عملے سے بتدریج چھٹکارا ہے جسے ایک عرصہ انہوں نے پروان چڑھایا اور نوازا ہے۔

اگر ایسا نہیں ہے تو پنکچر لگانے اور لگوانے کی باتیں کیوں ہوتی  رہی ہیں – ہر پاکستانی ووٹ کی لوٹ مار سے تنگ ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ دنیا کی ترقی اور بدلتے رنگوں کے ساتھ خود  کو بھی بدلا جائے اور انتخابی اصلاحات کی جائیں کہ ہارنے والا ہار ماننا سیکھے اور جیتنے والا تسلی سے اپنے دورحکومت میں یکسوئی سے کام کر سکے- ملکی ارباب و اختیار کو مل بیٹھنا ہو گا اور وہ اصلاحات کرنی ہوں گی کہ جس کے بل بوتے پہ وہی جیتے جس کو بیلٹ باکس جیتا قرار دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :