کورونا وائرس،عذاب یا وبا ؟ (دوسرا حصہ)

جمعہ 15 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

اب آئیے اس کے دوسرے پہلو کی طرف۔کہ کیا کورونا ایک وبا ہے ؟ایک بیماری ہے ؟ تو اس کا مختصر اور جامع جواب یہی ہے کہ جی ہاں ، بھلے کورونا وائرس آزمائش کی ایک شکل ہی کیوں نہ ہو، آیا وبا یا بیماری کی ہی صورت میں ہے اور یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے۔ اور شریعت میں بھی بیمار ہونے کی صورت میں باقاعدہ علاج کا حکم ہے۔ ہم میں سے ہر کسی نے کسی نہ کسی صورت میں سیرت النبی کے حوالے سے وہ مشہور واقعہ ضرور سن رکھا ہے جس میں ایک صحابی کو دل کے دورے شکایت ہوئی اور انھیں حضورﷺکے پاس لایا گیا توحضورﷺ نے انھیں علاج کے لیے لے جانے کی ہدایت کی اور ساتھ طبیب کیلیے عجوہ کھجور کو ایک مخصوص طریقے سے استعمال کروانے کامشورہ بھی عنایت فرمایا۔


ہمارے ماں باپ حضورﷺ پر قربان، کیاحضورﷺ سے زیادہ کوئی بشر قرآن ِمجید فرقانِحمید کے مفاہیم و مطالب سے آگاہ ہوسکتا ہے یا انھیں جان سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود آپﷺ نے انھیں باقاعدہ علاج کی جانب راغب کیا۔تاکہ امت کو یہ سبق ملے کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں اس کا علاج کرنا شریعت کے عین مطابق ہے اور علاج ہی سے بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

سو اس بات سے قطعِ نظر کہ یہ وائرس کہاں سے آیا اور کیسے پھیلا، یہ ایک وبا کی شکل میں آچکا ہے اوراب اس سے بچاؤ اور وائرس منتقل ہوجانے کی صورت میں اس کے علاج کے سوا چارہ نہیں۔ساری دنیا میں ماہرین گزشتہ چار ماہ سے اس پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ معلوم انسانی تاریخ میں کسی ایک وائرس یا وبا پر اتنے بڑے پیمانے پر تحقیق کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

دنیا کے ہر خطے میں اس وقت کورونا وائرس پر تحقیق ہو رہی ہے اور اس کے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے کے لیے دن رات کوششیں ہو رہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس کی ویکسین تیار ہونے میں بارہ سے اٹھارہ ماہ (12-18) کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کہ یہ عالم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہنا پڑا ہے کہ اگر امریکہ میں اموات کو ایک لاکھ تک محدود کیا جا سکا تو یہ ایک بڑی کامیابی شمار ہوگی ، سرِ دست صرف امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں کم و بیش اڑھائی لاکھ ممکنہ اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ادھرحکومتی ترجمان کے مطابق ماہِ جون تک پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جو موجودہ صورتحال میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے انتہائی تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا ہے اور تادمِ تحریر مئی کی 13 تاریخ تک حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مصدقہ مریضوں کی تعداد35 ہزار سیتجاوز کر چکی ہے اور اگر لاک ڈاؤن میں نرمی برقرار رکھی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ تعداد مئی کے آخر تک 50 ہزار سے کہیں زیادہ ہو جائے گی۔

حالات کی اس قدر سنگینی کے باوجود حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے طرحطرحکے علاج دستیاب ہیں ،اور ان علاج بتانے والوں میں صرف ہمارے وطن نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگ شامل ہیں۔ہمارے ہاں تو وظائف و عملیات سے لے کر پھلوں ،سبزیوں، مختلف اقسام کے تیلوں ،لیموں، چائے ، قہوہ، اورحد تو یہ ہے کہ ایک مخصوص جسامت کے پیاز سے بھی کورونا وائرس کا شافی علاج کیا جارہا ہے اور ان پیغامات کوصدقہِ جاریہ سمجھ کر آگے دوسروں تک پہنچایا جا رہا ہے ، اور ایسا کرنے والوں میں بلاتخصیص ہر عمر کے لوگ، خواتین وحضرات، خواندہ ، نیم خواندہ، کم پڑھے لکھے اور انتہائی حد تک تعلیم یافتہ ، سب شامل ہیں۔

کورونا وائرس پر اب تک ہونے والی تحقیق کو مدّنظر رکھیں تو ہر گزرتے دن کبھی پچھلے دن کی تحقیق کا اثبات ہو رہاہے تو کبھی اسے رد کیا جا رہا ہے۔
 علاج کے ضمن میں ابھی تک ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، کورونا وائرس کا نہ تو کوئی علاج دریافت ہوپایا ہے اور نہ ہی اس کی ویکسین ابھی تک بن سکی ہے۔ تاحال اس کے لیے پوری دنیا کے سائنسدان سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔

سرِ دست عالمی ادارہِصحت کے مطابق صرف اس وائرس سے بچ کر رہنا ہی عافیت کی ضمانت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں مسلسل ذکر کرتے آرہے ہیں کہ مضبوط قوتِمدافعت ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس لیے اس حوالے سے وہ تمام اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور ان تمام اشیا کا استعمال کیا جا سکتا ہے جن سے ہماری قوتِمدافعت میں اضافہ ہو سکے۔

لیکن اگر ان میں سے کسی چیز کے استعمال کو کورونا وائرس کے حتمی علاج کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو یہ سراسر لغو بات ہے ، اور جھوٹ پر مبنی ہے۔جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔بلکہ اس لحاظ سے یہ انتہائی خطرناک ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی کسی ویڈیو یا پیغام سے متاثر ہو کر کوئی انسان کسی بھی چیزکو کو رونا وائرس کا علاج سمجھتے ہوئے اس کا استعمال کر کے احتیاطی تدابیر کو پسِپشت ڈال دے۔

یہ نہ صرف خود کو کورونا وائرس کا شکار بنانے کے مترادف ہے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں ، اہلِ خانہ اور دیگراہلِ وطن کو بھی اس آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے جس کا فی الوقت عالمی سطح پر بھی کوئی علاج ممکن نہیں ہو سکا۔
جیسا کہ پچھلے ایک کالم میں عرض کیاتھا کہ ملیریا کی دوا hydroxychloroquine کو کورونا وائرس کے مریضوں میں استعمال بھی کروایا گیااگرچہ اس کے فائدہ مند اثرات کسی حد تک ضرور سامنے آئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل کے مریضوں میں اس کے استعمال کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں ، اس لیے اس دوا کو استعمال کرنے کی منظوری ابھی تک کہیں بھی نہیں دی گئی۔

ادھرآکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تجرباتی طور پر ایسے مریضوں میں sterioids, ،HIV کی ایک دوا اور interferon نامی ایک دوا کو استعمال کروا کر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اسی طرح کچھ مریضوں میں remdesivirنامی اینٹی وائرل بھی استعمال کروائی جا رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس کے بارے میں بھی مکمل صحت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن 2 مئی 2020 کو امریکی ادارے FDAنے ایمرجنسی صورتحال میں اس دوا کو استعمال کروانے کی منظوری دے دی ہے۔جرمنی میں ایک کمپنی نے کورونا وائرس کی ایک ویکسیین بنا کر انسانوں پر اس کا تجرباتی طور پر استعمال شروع کیاہے۔چین نے بھی 2ویکسیینز کی انسانوں پر تجرباتی استعمال کی منظوری دی ہے۔ (جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :