پاکستان کے مالکوں کے نام

منگل 20 اکتوبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

کسی شاعر نے کیا خوب لکھا تھا کہ ’’مجھ سے پہلے میرے اظہار کو موت آئی‘‘۔ اظہار دیدار کے بنا نہیں کیا جا سکتا اور جب انسان آئینے سے بھی ڈر کر کونوں میں چھپنے لگے تو اظہار کہاں، دیدار کہاں۔ پھر تو خیال کا سایہ بھی کہیں دور کھو جاتا ہے اور انسان بس زیر لب خیال کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس حالت کی حقیقت خوب جانتے ہیں لیکن آدمی بڑا مجبور ہے۔

اس کے دونوں ہاتھ باندھ کر سمندر میں چھوڑ دیا جائے تو نہ اس کے خیال کی قوت کی کوئی وقعت رہتی ہے نہ ہی جسمانی یا ذہنی قوت کسی کام آتی ہے۔ یہ خاص شرائط کے ساتھ کچھ امور کی انجام دہی کے قابل رہتا ہے۔
اللہ اللہ! ابھی تو بمشکل گھسے پٹے بیس کالم نہ لکھے تھے کہ چپ کا کا ایسا روزہ لگ گیا کہ نہ پوچھیے۔ وجہ نہ ہی بتانے کے قابل ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فوری حل ہے۔

(جاری ہے)

اس کی تو تدبیر ہی کی جا سکتی ہے اور وہ بھی جب ہاتھ آزاد ہوں۔ ویسے بھی کالم لکھ کر کون سا کوئی تیر مار لینا ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ نہ روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے نہ ہی اس کے بدلے کسی صلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہٹ ہٹا کر یہی امید ہوتی ہے کہ شاید کسی کے دل میں اتر جائے میری بات اور شاید کسی کی توجہ ان بیماریوں کی طرف بھی چلی جائے جو کہ اصل مسٔلے ہیں۔

نان ایشوز سے توجہ ہٹانا بھی یہاں ایک کام ہے۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ ہمارے سارے دانشور یہی کہتے رہتے ہیں کہ سارے مسائل کی جڑ جہالت ہے۔ جب شعور نہیں ہوتا تو نہ مسٔلہ سمجھ آتا ہے اور نہ ہی اس کے حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آدھی آبادی ان پڑھ دیہاتی ہے۔ درویش پوچھنا چاہتا ہے باقی جو پڑھے لکھے ہیں وہ کیا پڑھے ہیں؟ انہیں بھی نصاب اور حالات نے عاشق بنا دیا ہے۔

یہ دو طرح کے عاشق ہیں۔ ایک جو کسی دوشیزہ کی زلف کے اسیر ہیں۔ دوسرے وہ جن پر مادی دنیا نے اپنے خمار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہی بات کہ غمِ عشق گر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا۔
پوری دنیا کا تو پتہ نہیں لیکن یہاں یہی حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی زیادہ تر یا تو شخصیت پرست ہیں یا نظریاتی۔ شخصیت پرستی نظریاتی ہونے کی طرف پہلا قدم ہے اور یہ ہر جگہ قابل اطلاق ہے۔


ہمارے ہاں ایک طبقہ رجعت پسندوں کا ہے۔ یہ زیادہ تر ایران اور سعودی عرب کے قریب ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی دینی اور دنیاوی رسمیں اور روایتی مذہبی بیانیہ  کسی بھی غلطی سے پاک ہیں اور تبدیلی یا یا تصیح کی گنجائش باقی نہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک آج کل کے ترازو میں مغربی غلاظت اور بے راہ روی کا ہونا ہے۔ لہٰذا ان کے کچھ جذبات ہیں جن کے ساتھ کھیل کر کوئی کرکٹر یا جرنیل کیا، کوئی جعلی پیر بھی الیکشن جیت جائے گا۔

میرا خیال ہے یہ اس سے بھی بڑا، غالباً ایران کے آیت اللہ خامنینی والا رتبہ بھی اسے دے دیں گے۔ اگر ان کا بس چلا تو یہ اسے خلیفہ بنا کر باقی اسلامی ممالک سے جنگ کر کے انہیں بھی اس خلیفہ کے ماتحت کر دیں گے۔ یہ یہیں اکتفا نہیں کریں گے۔ یہ ساری دنیا سے جنگ کریں گے اور نیوکلیئر ہتھیار بھی انہیں شاید اس فعل کی انجام دہی سے روک نہ سکیں۔
دوسرا گروہ خود کو روشن خیال، ماڈرن، لبرل یا مارکسسٹ کہتا ہے۔

ان میں سے نظریاتی لبرلز یورپ اور امریکہ کو حق مانتے ہیں اور مارکسسٹس چین اور روس کو۔ پہلے لبرلز ہیں اور یہ دین کو صرف مسلمان رہنے کے لیے مانتے ہیں۔ باقی تھوڑے ہیں لیکن وہ دین کو انسانی فکر سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یورپی فلسفے کی جدت اور عظمت کا مقابلہ کوئی دینی بیانیہ نہیں کر سکتا۔  دوسرا گروہ مارکسسٹس کا ہے اور یہ زیادہ تر مادی لوگ ہیں۔

انہیں زمین بہت پسند ہے اور یہ اس میں طبقات کے بیچ برابری چاہتے ہیں۔ یہ سب چونکہ نظریاتی ہیں، اس لیے یہ سارے گروہ کچھ مسٔلوں کا شکار ہیں اور اس کی وجہ یہ ملک اور اس کا نظام ہے جس کے اندر کسی قسم کی علمی یا معاشی ترقی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ آپ کو پاکستان کے ہر مسٔلے کی جڑ تبھی ملے گی جب آپ سمجھیں گے کہ غربت کیا بلا ہے۔


پاکستان غریب نہیں اور نہ یہاں مہنگائی ہے۔ بس یہاں کا پیسہ صحیح جگہ لگ نہیں رہا اور لوگوں کی قیمتِ خرید کم ہے۔ پوری دنیا میں چیزوں کے ریٹ دن بدن اوپر ہی جا رہے ہیں اور یہ نیچے نہیں آئیں گے۔ بس لوگوں کی قیمتِ خرید اور مارکیٹ ریٹ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ دوسرا یہاں سیاسی اور معاشی نظام مجرمانہ ہے۔ سود، ناجائز اور ظالمانہ ٹیکسز ہوں یا سرمایہ داروں اور بینکوں کا دنیا کی دولت پر قابض ہو جانا، کوئی لبرل یا مذہبی گروہ یا جماعت اس پر تنقید نہیں کرتی۔

رسول اللہ ﷺ نے سود کو اللہ سے جنگ قرار دیا تھا مگر کوئی بھی مذہبی سکالر اس پر بات ہی نہیں کرتا۔ کرتے ہیں تو پڑھے لکھے ترقی پسند۔ ظاہر ہے یہ سیاستدان اور علماء کرام اسی نظام میں جی کر بہت فائدے میں ہیں۔ جس نظام میں ان کا فائدہ ہے، یہ کیوں اسے تبدیل کریں گے؟ تبدیلی تو مظلوم کی خواہش ہوتی ہے یا سلیم الفطرت انسان کی۔ میرے اس کالم کا ہدف وہی مظلوم لوگ ہیں۔


دوسرا سیاسی نظام حد سے زیادہ مجرمانہ سیاست سے پٔر ہے۔ میں رات 9 سے پہلے خبریں نہیں سنتا۔ لہٰذا جب بھی اس سے قبل مجھے کوئی خبر دیتا ہے کہ سیاسی منظر نامے میں یہ تبدیلی ہوئی ہے تو میں سیاستدانوں کی بجائے عوام کے بیانات دیکھتا ہوں کہ عام پاکستانی کیا کہہ رہے؟ افسوس ہوتا ہے کہ عام پاکستانی کسی لیڈر یا بیانیے ہی کو سپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔

میں پوچھتا ہوں کہ یہ عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری یا ان کے پیچھے پردے بیٹھی خلائی مخلوق سب فرشتے ہیں؟ یہ ہیں کیا؟ پاکستان پاکستانیوں کا ہے۔ قیادت انہیں میں سے ہونی چاہییے۔ جب ایک مڈل کلاس آدمی جو اس ملک کی %70 مڈل کلاس اور اس سے بھی نچلے طبقوں کا ترجمان ہوتا ہے، الیکشن نہیں جیت سکتا تو مطلب اس ملک کا معاشی اور سیاسی نظام خراب ہے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے کہ اسے فوراً تبدیل کر دیا جائے۔

اگرچہ نواز شریف نے ماضی میں بہت غلطیاں کی ہیں لیکن انہوں نے ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کیا ہے جو اس ملک کے نظام میں ایک تبدیلی کا مطالبہ ہے۔ یہ اچھی تبدیلی ہو گی جو عوام کی سپورٹ کی بنا نہیں آ سکتی۔ یہ تبدیلی نواز شریف کے نہیں، پاکستان کے حق میں ہے۔ باقی نواز شریف صاحب مہربانی کر کے اپنی پارٹی کو عوامی پارٹی بنائیں۔ قیادت صرف گھر سے نہیں منتخب ہونی چاہیئے۔

قاضی فائز عیسٰی بھی حق بجانب ہیں کہ جب عام پاکستانی کرایے کے گھروں میں رہ رہے ہیں جبکہ بڑے شہروں میں مزید تعمیرات کی گنجائش ہی نہیں تو جرنیلوں اور ججوں کو اب زمین اور پلاٹ نہیں الاٹ ہونے چاہیئں۔ وہ بھی اب عام لوگوں کی طرح رہنا اور ملک کی خدمت کرنا سیکھیں۔ یہ ابتری کا تصور انگریز کا تھا اور وہ بھی صرف اپنی کالونیوں میں! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :