استحکامِ پاکستان اور مولانا فضل الرحمان

بدھ 31 جولائی 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک انصاف کی حکمرانی میں پاکستان اور افواجِ پاکستان سے محبت کرنیوالوں نے جشن سالگرہ میں وزیر اعظم پاکستان پر اپنی محبتیں نچھاور کردیں۔ دورہ امریکہ میں عمران خان کو دنیا نے دیکھا ۔قومی لباس میں ملبوس شانِ پاکستان وزیر اعظم نے امریکی صدر کو اپنے اندازِ گفتگو میں بتایا کہ اگر توسیر ہے تو میں سواسیر ہوں ۔
دورہ امریکہ سے قبل پاکستان کے مزاحیہ سیاستدان شیخ رشید نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دونوں کے مزاج میں آگ سُلگتی محسوس ہوتی ہے ۔

امریکہ کے ایک مزاحیہ TVاداکار نے بھی کہا تھا کہ آگ کے دوشعلے آمنے سامنے ہونے جارہے ہیں ۔جانے کیا سے کیا یعنی کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔عمران خان تو امریکی صدر کے مزاج سے واقف تھے لیکن امریکی صدر جو عمران خان کے مزاج کو نہیں جانتے تھے وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی پر اُس کی ایک سالہ کارکردگی میں اُس کو بخوبی پڑھ لیا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ وہ وزیر اعظم نہیں جو سابق صدر باراک اوباما کو پرچیاں پڑھ پڑھ کر اپنی اورپاکستان کی کہانی سنارہا تھا اس لیے امریکی صدر ٹرمپ نے دوراندیشی سے کام لیا دونوں رہنماؤں نے خوشگوار ملاقات کی تاریخ رقم کردی ۔

(جاری ہے)

صدر ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات کے اعلامیہ نے بھارت کی قومی سیاست میں ہلچل مچادی دنیا کے عظیم ممالک نے وزیر اعظم عمران خان کی گفتار وکردار میں خوبصورت پاکستان اور تابندہ دنیائے اسلام کو سوچا ،، ترکی اور ملائیشیاء نے پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ دنیائے اسلام کیلئے ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ایسا ایک بار پہلے بھی ہوا تھا دنیا کے عظیم لیڈروں نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کرداروگفتار میں دنیائے اسلام کیلئے سوچا تھا اور اُن کی دعوت پر پاکستان آئے تھے ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں تاریخ رقم کر دی تھی ایسا ہی کچھ دنیائے اسلام عمران خان کی شخصیت کرداروگفتار میں بھی محسوس کر رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ افواجِ پاکستان کے چیف ہیں جو ذاتی طور پر پاکستان اور پاکستان کی عوام کیساتھ مخلص ہیں نظامِ عدل کو بھی وزیراعظم اور آرمی چیف کی سوچ سے حوصلہ ملا اور سابقہ دور کے حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ۔

دورِحاضر میں بدکرداروں کے خلاف وہ کچھ ہورہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا بلکہ کسی نے سوچا تک نہیں اس لیے شکست خوردہ جواری عمران دشمنی میں پاکستان کے استحکام تک کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔اپوزیشن کی میں نہ مانوں کی رَٹ دراصل اپنا دکھ پیٹنا ہے کہ ہمیں کیوں نکالا اقتدار نے نکال کر جیل میں کیوں ڈالا اُن کی شاہ خرچیاں اُنہیں بے چین کیے ہوئے ہیں لیکن اُن میں اُن کے مولا نا ضرورت سے کچھ زیادہ بے چین ہیں ۔

اپوزیشن کے یہ لوگ اُس مولانا کی امامت میں نماز نہیں پڑھتے لیکن وہ جانتے ہیں مولانا کو اُس کے کردار وعمل میں !! اس لیے اُس کو آگے لگائے ہوئے ہیں اور اُس نے اس شہرِ اقتدار سے محبت میں وزیر اعظم کو دھمکی دی اگر اکتوبر 2019ء تک استعفیٰ نہیں دیا تو ہم شہرِاقتدار کی طرف ملین مارچ کریں گے ۔
اب مولانا کو کو ن سمجھائے کہ وہ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے اور نہ کسی کی مانتے ہیں ۔

مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جعلی مینڈیٹ دے کر موجودہ حکومت کو ہم پر مسلط کردیا اگر وہ سچ کہہ رہے ہیں تو پھر شور کرنے کی ضرورت کیا ہے ہر محاذ پر شکست کھانے کے باوجود اگر آج بھی مولانا کو سمجھ نہیں آئی تو قصور اُن کا ہے بہتر ہوگا کہ عوام کو گمراہ نہ کریں اور استحکامِ پاکستان کیلئے ممبرِ رسول پر بیٹھ کر دین مصطفےٰ کی تبلیغ کریں اس لیے کہ پاکستان کی عوام دہشت گردی میں لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چکی ہے ۔

افغانستان میں امن واستحکام کیلئے پاکستان کے کردار کو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیانے تسلیم کر لیا ہے ۔امریکہ پاکستان کے راستے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ طالبان عمران خان کیساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں ہندوستان کی سیاست ہلچل کی اصل وجہ یہی ہے اگر امریکہ افغانستان سے نکلتا ہے ،طالبان کو افغانستان میں اُن کا حق ِحکمرانی ملتا ہے تو طالبان ہندوستانی آگ کی بھٹی میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو جلتا کیسے دیکھ سکیں گے اگر طالبان نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے ہندوستان تو اُن کیلئے اُن کی روٹی میں نمک کے برابر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :