پی آئی سی پر حملہ، جنگل کا قانون ہے وکلاء کو جرأت کیسے ہوئی؟

منگل 17 دسمبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء اور ڈاکٹربرادری کے درمیان تنازعے پر تحریک انصاف پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں کہ پی آئی سی پر حملہ دراصل مسلم لیگ ن کا منصوبہ تھا اگر واقعی فیاض الحسن چوہان سچ کہہ رہے ہیں تو وکلاء برادری کیساتھ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بھانجے کا کیا جواز تھا کیا عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی اپنے ماموں کے خلاف ہیں ۔


دراصل یہ ایسی فضول اور بے بنیاد باتیں ہیں جن سے ایسے سا نحات کے رُخ بدل جایا کرتے ہیں ۔پی آئی سی پر حملہ وکلاء نے کیا وکلاء کے قبیلے میں ہر سیاسی جماعت کے نظریاتی وکلاء بھی ہیں اگر صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان خودپر حملہ آور وکلاء کی بات کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ فیاض الحسن چوہان کی تحریکی زبان بے لگام ہے وہ مسلم لیگ ن کے خلاف جوزہر اُگلتے ہیں آخر اس کا کچھ خمیازہ تو بھگتنا تھا بھگت لیا۔

(جاری ہے)

کیا ہی بہتر ہوتا کہ وکلاء اور ڈاکٹرز برادری کے درمیان تنازعے میں اہم کرداروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ۔سانحہ پی آئی سی سے 15روز قبل پی آئی سی میں ایک وکیل کی تلخ کلامی اور بدزبانی پر ڈاکٹرز کے ردِ عمل میں وکیل کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی اور نہ ہی ایک شرارتی ڈاکٹر کی وکلاء کے خلاف نظم پر اُس کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی تو وطن عزیز میں دنیا کالے اور سفید کوٹ کے درمیان افسوسناک صورتحال نہ دیکھتی پڑھے لکھے لوگوں نے بدتر ین جہالت کا ثبوت دیا جن میں وکلاء نے ضرورت سے بہت زیادہ ردِ عمل کا مظاہرہ کرکے کالے کوٹ کی توہین کی اور کر رہے ہیں ۔

عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے تو نقصان اُن سائلوں کا ہوگا جن سے بھاری فیس وصول کرچکے ہیں جومختلف نوعیت کے مقدمات میں عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں ۔
وکلاء برادری کا یہ مطالبہ بھی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے کہ ہسپتال پر حملہ آور بسترِ مرگ پر پڑے مریضوں کی موت کے ذمہ دار گرفتار وکلاء تو رہا کیا جائے یہ تو انصاف نہیں اگر وکلاء نے خودپرستی میں مذہب اور قوم پر ستی کو نظر انداز کیا ہے تو اُس کی ان کو آئینی اور قانونی طور پر سزا ملنی چاہیے ۔

گرفتار وکلاء کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ سے کہا کہ پولیس نے وکلاء پر تشدد کیا جیسے وہ پاکستانی نہیں کسی اور ملک کے شہری ہوں اور جنگ لڑنے آئے ہوں حالانکہ پولیس پر تو الزام ہے کہ وکلاء کے جلوس کے دوران پولیس خاموش تماشائی تھی اور یہ حقیقت ہے پولیس جلوس کا تماشہ دیکھ رہی تھی لیکن جب پانی سر سے گزر گیا تو پولیس حرکت میں آئی ہنگاموں میں ایسا ہوتا ہے پولیس کی لاٹھی جب اُٹھتی ہے تو وہ نہیں دیکھتی کہ سرکسی وکیل کا ہے یا مولوی کا قانون کی رَٹ قائم کرنے کیلئے پولیس اپنا فرض سرانجام دیتی ہے گرفتار وکلاء کے وکیل سے جسٹس باقر علی رضوی نے سوال کیا کہ کیا آپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ وکلاء کو پی آئی سی پر حملے کی جرأت کیسے ہوئی ۔

پی آئی سی پر حملہ جنگل کا قانون سے اور کوئی بھی معاشرہ جنگل کے قانون میں زیادہ عرصہ باقی نہیں رہتا ۔عدالت میں جج وہی فیصلہ کریں گے جو آئین اور قانون کے مطابق ہوگا گرفتار وکلاء کی ضمانت کروانی پڑے گی ان کو رہا نہیں کیا جاسکتا ۔
پی آئی سی میں وکلاء کی غیر انسانی عمل نے وکلاء برادری کو اپنے اعلیٰ قومی مقام سے گرادیا ہے عوام کی نظروں سے وکلاء برادری اپنے ہی غیرانسانی سلوک کی وجہ سے گرگئی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ وکلاء تنظیمیں سانحہ پی آئی سی کی بھرپور مذمت کرتیں ڈاکٹرز برادری کو اعتماد میں لے کر وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازعہ ختم کرکے ایک دوسرے کے گلے لگاتیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ،،مَیں نہ مانوں ،،کی سیاست کا راج ہے ہر قصور وار کا کوا سفید ہے قومی خزانہ لوٹنے والے تک خود کو معصوم کہہ رہے ہیں ۔

جن کو عدالت اور قانون مجرم قرار دے چکی ہے وہ بھی شرافت کا شملہ اُونچاکیے دوسروں پر اُنگلی اُٹھارہے ہیں اور ان خودپرستوں کے درمیان وہ لوگ پِس رہے ہیں جن کو یہ سیاستدان ،غریب ،مزدور کسان کہتے ہیں اُن کے گیت گاکر اُن کا خون پسینہ پی کر اُنہی پر راج کرتے ہیں خودپرستی اور خودغرضی کی اس فضا میں ظالم کو ظالم کہنے والا بھی زندگی سے جاتا ہے اس لیے بولنے والے بھی اپنے بدترین مستقبل سے خوفزدہ ہیں خاموش ہیں ۔

پی آئی سی پر وکلاء کے حملے کے بعد وکلاء برادری کے خلاف نفرت کی ایک لہر سوشل میڈیا پر اور میڈیا کے ٹاکروں میں دیکھی اور سنی جارہی ہے شہریوں ،ججوں ،پولیس اور خواتین پر سرِعام تشدد کی ویڈیومیں کالے کوٹ کے ہاتھوں میں قانون کی بے حرمتی پوری قوم دیکھ رہی ہے ۔کالے کوٹ کے خلاف ہر مکتبہ فکر کے لوگ بول رہے ہیں اس لیے کہ انہوں نے ہسپتال میں زیر علاج دل کے مریضوں تک کو نہیں بخشااس انسانیت سوز ظلم پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس افسوسناک واقعے کی مذمت کی وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن سانحہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے افسوسناک واقعے پر زیادہ نہیں بولے لیکن اُن کی مذمت ہی قوم کی حوصلہ افزائی اور وکلاء برادری کی حوصلہ شکنی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔طب اور وکالت مہذب پیشے ہیں اور ان مہذب پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی عمل سے گزرنا ہوگا ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے اظہار افسوس کے بعد بھی اگر وکلاء برادری عدالتوں کے بائیکاٹ کے فیصلوں پر غور نہیں کرتی تو قوم کو یہ یقین کر لے گی کہ وکلاء برادری اور خود غرض اور خودپرست سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں سیاستدان قومی خزانے کو لوٹتے ہیں اور وکلاء مصیبت زدہ عوام کو براہِ راست لوٹتی ہے۔

ان کو سیاستدانوں کی طرح مجبور ،معصوم اور مجبور عوام کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں ،عدالتوں کا بائیکاٹ ہوگا تونقصان کس کو ہوگا اُن کا جو عدالتوں میں اپنے کردہ اور ناکردہ جرم میں گرفتار ہیں وہ زیرِ سماعت مقدمات میں فیصلو ں کے منتظر ہیں ۔
ایسی صورت میں مجبور اور معصوم بدعاہی تودے سکتے ہیں اور تو اُن کے پاس کچھ ہوتا نہیں اگر کچھ تھا تو وہ تو وکیل نے اُن سے فیس کی مد میں لے لیا ہے قوم کو کالے کوٹ میں ملبوس قانون اور معاشرے کے باوقار تعلیم یافتہ وکلاء سے یہ اُمید نہیں تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :