ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا لیکن بلاول جھک گیا تھا!!

ہفتہ 14 مارچ 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

سیاست میں قیادت اور کارکن کا باہمی رابطہ اورایک دوسرے پر اعتماد ہی کسی سیاسی جماعت کی شان اور پہچان ہوا کرتی ہے ۔قیادت اپنے چاہنے والوں کے احترام اور ان کے خوبصورت مستقبل کے لئے سو چتی ہے اورقیادت کو چاہنے والے ان کی اس چاہت پرقربان ہوتے ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی نظر میں قیادت کا مرتبہ کسی مرشد سے کم نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسے چاہنے والوں کے کچھ ذاتی مفادات نہیں ہوتے اس لئے بعض اوقات قیادت کی سوچ سے اختلاف پر خاموش رہنا بہتر سمجھتے ہیں لیکن کچھ ہیں جوبولتے ہیں اور قیادت کے فیصلوں پر احترام کے دائرے میں اپنی سوچ کا برملا اظہار کرتے ہیں ان کا یہ اظہار ہی قیادت سے ان کی محبت ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے چاہنے والے بھی ہوتے ہیں جب ان کی انا کی مجروح ہوتی ہے تو وہ قیادت کا احترام بھی بھول جاتے ہیں اور جماعت سے پرواز کر جاتے ہیں اس لئے کہ وہ قیادت سے محبت توکرتے ہیں لیکن قیادت کے غلام نہیں ہوتے، آج کل قومی سیا ست میں ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے کچھ ذاتی مفادات اور کچھ قیادت کی خود پرستی کی وجہ سے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جا رہے ہیں!
 پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف قومی سطح کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ایک حکمران ہے اور دو اپنی اپنی باری پر حکمرانی کر چکی ہیں گذشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تحریکِ انصاف کے مقابلے میں ہار چکی ہیں اور آج اپوزیشن کی نشستوں پر اسمبلیوں تنخواہ اور مراعات کے ڈیسک بجا تے ہیں حاضری لگاتے ہیں دوسرے لفظوں میں دونوں بڑی جماعتیں اپنے کل کے کئے قومی جرائم کا حساب دینے سے گریزا ں ہیں اور ا پنے خلاف مقدمات پر ماتم کے سوا قوم کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے!
 اپوزیشن کا الزام ہے کی حکمران جماعت ذاتیات کی بنیاد پر ان سے انتقام لے رہی ہے اگر واقعی یہ سچ ہے توکیا ہی بہتر ہوتا کہ اپنے خلاف الزامات اور مقدمات کے لئے اوروں پر اعتماد کرتے اپنے چاہنے والوں کے درمیان رہ کر ا پنے دامن پر لگے داغ دھوتے لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ حکمران نہیں اور اب فیصلے ان کی مرضی کے مطابق نہیں حقائق کی بنیاد پر ہوں گے !!
پاکستان پیپلز پارتی نے مسلم لیگ ن کا بھر پور ساتھ دیا لیکن مسلم لیگ ن نے ہمیشہ کی طرح اپنے اتحادیوں کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کیا، مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ کا کھا یا نمک حلال کر نے کے لئے دھرنا مارچ کیا مسلم لیگ ن نے اندرونِ خا نہ ہاتھ ملایا اور اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ایک بیٹی اور اپنے چاہنے والوں کو مشکل میں چھوڑ کر ملک سے علاج کے لئے باہر چلے گئے اور پیپلز پارٹی کی آنکھ کھل گئی پیپلز پارٹی کی قیادت کو جب احساس ہوا تو پہلے شکوہ کیا اورپھر اختلافی سوچ کو ہوا دیکر اپنی غلطی کا برملا اعتراف کر لیا۔

(جاری ہے)

 مسلم لیگ ن کی دوسری قیادت کا صبر بھی تمام ہو گیا آخر کب تک حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے اس لیے کہ کسی بھی جماعت کے اراکینِ اسمبلی قیادت کے احترام میں ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن وہ قیادت کے غلام نہیں ہوتے ہر رکن اسمبلی اپنے حلقہء انتخاب کے عوام کے سامنے بھی جواب دہ ہوتا ہے مسلم لیگ ن کے اجلاس میں دوسری قیادت اور ارا کینِ اسمبلی نے قیادت سے محبت میں خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا کہ قیادت اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ میں ہے حقائق کے پیشِ نظر ناراض ممبرانِ اسمبلی کے خلاف کاروائی کی دھمکی سے بہتر ہے کہ قیادت واپس آئے آج چھ ساتھ چھوڑ گئے ہیں کل زیادہ بھی ہو سکتے ہیں ،پارٹی میں چار افراد عقلِ کل نہیں پارٹی کو قائم رکھنا ہے تو قیادت کی سوچ کا ساتھ دینا ہوگا اگر قیادت کو نظر انداز کیا گیا تو عوام کا پارٹی پر سے اعتماد اٹھ جائے گا عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پارٹی قائد اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف خود سا ختہ جلا وطنی چھوڑ کر اپنے وطن آئیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں!مسلم لیگ ن کے نمائندہ اجلاس میں پارٹی عہدیداروں اوراراکینِ اسمبلی کی گرماگرمی کے بعد پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن نے بھی کھل کر کہہ دیا کہ تحریکِ انصاف کی حکمرانی کا اندرونِ خانہ میاں محمد نواز شریف محافظ ہے پیپلز پارٹی کہ اس بیان پر پارٹی کے نظریاتی کارکن کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے رہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت موقع پرست ہے ذاتی مفاد کے لئے قدموں میں گر جاتے ہیں اورمطلب نکلنے کے بعد آنکھ پھیر لیا کرتے ہیں لیکن بلاول بھٹو نے اپنے پیاروں کی سچائی کو نظر انداز کیا اور کر رہے ہیں صاحبانِ سیاست اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک آج بھی محفوظ ہے لیکن فقدان ہے قیادت کا جو اپنے زخموں کے لئے مرحم کی تلاش میں ہے اگر دونوں جماعتوں اپنے گذشتہ اعمال کا حساب دینے کی بجائے ایسا ہی ماتم کرتے رہے تو ان کے چاہنے والے بھی ان سے مایوس ہو کر اپنے آنے والے کل کو سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے!!! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :