پی ڈی ایم اور پاکستان سے چمٹی بیماری

جمعہ 18 دسمبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوزیشن نے بڑے بڑے جلسے کر کے اپنا رانجھا راضی کر لیا ۔ پاکستان کے خلاف بھی بولے اور افواج پاکستان کے خلاف بھی بولے بڑے بڑے دعوے ہوئے لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا، کہتے تھے 8 د سمبر کو نیازی کی حکمرانی کا آخری دن ہے لیکن ایجنڈے پر اتفاق نہیں کر سکے تو کہا  31 دسمبر کو لاہور میں نیازی کی حکمرانی کی دیوار کو آخری دھکا دینے کے لئے میں میدان لگے گا ۔


حکومت نے یہ ضرور کہا کہ عوام پر رحم کرو لیکن کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تو اپوزیشن نے کہا کہ نیازی حکومت کی ٹانگیں کانپ گئی ہیں ۔ رہی بات کہ جلسے میں کتنے لوگ تھے یہ سوچنے کی ضرورت سوچنا تو یہ ہے کہ 31 دسمبر بھی گذر گیا کوئی دیوار نہیں گری بلکہ خود عوام کی نظروں اپوزیشن گر گئی اور اب کھمبا نوچ رہی ہے ۔

(جاری ہے)

کیا ہی بہتر ہوتا کہ استعفیٰ مانگنے او ر استعفیٰ دینے کی رٹ لگانے والے فضل الرحمان اپنی جماعت کے منتخب اراکینِ اسمبلی کے استعفے ایوان میں سپیکر کو دے کر مثال بن جاتے لیکن قوم جانتی ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں !اب کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت 31جنوری تک مستعفی نہ ہوئی تو یکم فروری کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا مطلب ہے کہ جو تیر ہم اب تک نہیں ما ر سکے یکم فروری کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر کے ماریں گے ! وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید غلط نہیں کہا کہ اپوزیشن نے اپنی سیاست کا جناز ہ خود نکال دیا ہے وہ استعفے دینا چاہتے ہیں، لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں تو فروری کا انتظارکیوں کر رہے ہیں ؟
  بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ حکومت سے مذاکرات کا وقت گزر چکا ‘ اب عمران خان کے استعفے کا وقت ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)کی مریم نوازکا کہناتھاکہ ہم نے حکومت ،اداروں، کرونا اور موسم کی مخالف کے باوجود لاہورمیں تاریخی جلسہ کیا‘ تسلیم کرتے ہیں کہ اپوزیشن کا جلسہ بڑا جلسہ تھا لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بندر ناچ کے لئے جب ڈوگڈوگی بجتی ہے تو راہگیر تماشہ دیکھنے آجاتے ہیں پاکستان کے عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ نہ تو مریم نواز بے نظیر بن سکتی ہیں اور نہ بلاول ذوالفقار علی بھٹو بن سکتے ہیں۔


بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ہمارے استعفے ایٹم بم ہیں، اپوزیشن ایٹم بم کااستعمال ملکر کرے گی، بلاول کی اس دھمکی کی وضاحت کرتے ہوئے کھاریاں شہر کے ممتاز تجزیہ نگا رچوہدری بشارت ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ دور حاضر میں ایٹم بم دکھانے کے لئے ہوتے ہیں چلانے کے لئے نہیں ایٹمی قوتیں قوموں کو ڈرانے کے لئے بیان دیا کرتی ہیں اس لئے بلاول بھی دھمکی ہی دے رہا ہے اسے سنجید ہ لینے کی ضرورت نہیں !!
 البتہ عمران خان نیازی خود کو قائدِ اعظم ثانی ضروردیکھ رہے ہیں قیام ِ پاکستان سے قبل کسی نے بابائے قوم سے سوال کیا کہ آخر کس مقصدکے حصول کے لئے مسلمانوں کے آگے لگے ہو ئے ہو تو بابائے قوم نے فرمایا صرف ایک مقصد ہے وہ یہ کہ بروزِ محشر جب خالقِ کے حضور پیش ہوں تو خالق کہے ، ولڈن جناح ،،عمران خان بھی پاکستا ن کو مدینہ ثانی کی اس جدو جہد میں سوچ رہے ہیں شاید!! کہ بروز محشر رب کائنات کہے ۔

۔بہت خوب نیا زی، جہاں تک عمران خان کی گذشتہ ز ندگی پر انگلی اٹھنے کی بات ہے تو اگر ہم سب کا خدا ، ایک غیر مسلم خاتون کو مسجد کی نالی صاف کر نے کے عوض جنت کی بشارت دیتا ہے تو نیازی کو کیوں نہیں وہ بھی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے سیاسی گندگی صاف کر رہا ہے۔ جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکمرانی عوامی ووٹ سے نہیں آتی لیکن اگر لانے والوں کوتختِ اسلام آباد پر بیٹھ کر نظر انداز کر لیں تو حکمرانی کا تختہ ہو جایا کر تا ہے اور عمران خان یہ حقیقت کوبہت بہتر جانتے ہیں اس لئے تو وہ کہتے ہیں کہ ‘ مریم نوازمیں سیاسی بصیرت نہیں ‘وہ ریاستی اداروں کے خلاف زہراگل رہی ہیں ‘
پاکستان کی سیاست میں پی ڈی ایم کا کل تاریک نظر آرہا ہے قوم کو یاد ہو گا کہ میثاقِ جمہوریت کے علمبردار میاں صاحب نے حصول اقتدار کے بعد کہا تھاکہ پاکستان کی سب سے بڑی بیماری آصف علی زرداری ہیں لگتا ہے پی ڈی ایم سے پاکستان کی وہ بیماری چمٹ گئی ہے اس لئے کہ ایک زرداری سب پہ بھاری نے بھی کہا تھا کہ میاں صاحب مقاصد کے حصول کے بعد پیٹ میں چھرا گھونپ دیا کر تے ہیں لگتا ہے چھرا اب زرداری کے ہاتھ میں ہے پی ڈی ایم کی پیٹ میں وہ کب چھرا گھونپتے ہیں حکومت اور اداروں کو بس یہ ہی انتظار ہے       
اپوزیشن کے جلسوں کے بعد لاہور کا جلسہ زیرِ بحث ہے گھبر سنگھ پوچھ رہا ہے ، ارے او سامبا ،کتنے آدمی تھے اور سیاسی سامبے ،شا مبے اینکر وینکر فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کتنے آدمی تھے لیکن لاہوریوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کتنے آد می تھے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور ا پوزیشن کا جلسہ کسی بھی حوالے سے تاریخی نہیں تھا شاہد خاقان عباسی کے بقول ایک لاکھ لوگ تھے لیکن تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تعداد 15 سے 20 ہزار تک تھی ۔


 1986 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرِ انتظام لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا بڑا جلسہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کا تھا ایک تجزیہ نگار کامران شاہد کہتے ہیں کہ اس جلسے میں لاہور ایئر پورٹ سے مینارِ پاکستان تک لوگ ہی لوگ تھے، تا ریخ کا دوسرا بڑا جلسہ  2011میں تحریکِ انصاف کے زیرِ انتظام عمران خان کا تھا لاہور کے شہری اس کے بھی گواہ ہیں لیکن  11جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کے جلسے کو ہم کسی بھی صورت میں تاریخی نہیں کہہ سکتے!!لیکن پی ڈی ایم اگر بضد ہے کہ لاہو ر میں ان کاجلسہ تاریخی تھا تو ہوگا وہ تو اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں پاکستان کے عوام ان کو سنتے ہیں اور ان پر ہنستے ہیں اس لئے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس میں کوئی صداقت نہیں عوام ان کی حکمرانی دیکھ چکے ہیں اور تحریکِ انصاف کی حکمرانی بھی دیکھ رہے ہیں عوام کوکچھ مفاد پرست سیا ستدا نوں نے ٹرک کے بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے دراصل یہ اقتدار کی جنگ جاری ہے گیارہ مل کر گرانے کی اور ایک بچانے کی کوشش میں ہیں،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :