بھارتی مسلم کسی ہمدردی کے مستحق نہیں

جمعہ 28 فروری 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

بھارتی مسلمانوں کے اوپر ہونے والے ظلم پر آنسو بہانے والے پاکستانی یہ جان لیں کہ یہ لوگ ہندوستان میں بائے چانس نہیں رہے بلکہ یہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ رد کر کے بائے چوائس ہندوستان میں رہے، اور یہ آج تک پاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ان کے حق میں ٹویٹر پر ایک ہمدردانہ پیغام دیا تو ان کے ایک نام نہاد مسلم لیڈر اسد الدین اویسی نے عمران خان کو جواب دیا کہ ہماری فکر چھوڑو اپنے ملک کی فکر کروکیونکہ ہم نے قائداعظم کے نظریے کو ریجکٹ کیا ہے۔

تو پاکستانیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہندو کر رہے ہیں وہ ضرور شیئر کریں تاکہ مودی اور بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو مگر ان بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ہمدردی ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے ہندوؤں کی غلامی قبول کی۔

(جاری ہے)

آج اگر ہندو ان کو جوتے مار رہے ہیں تو یقین کریں یہ لوگ انہی جوتوں کے قابل ہیں کیونکہ یہ آج بھی قائداعظم کے نظریہ کو دل سے تسلیم کرنے پر راضی نہیں بسا اوقات اوپر اوپر سے کہہ کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر لیتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے۔

جس دن انہوں نے علامہ اقبال اور قائداعظم کے دو قومی نظریہ کو دل سے قبول کر لیا تو ان کے پیروں میں یہ غلامی کی زنجیریں نہیں رہیں گی۔ کوئی ہندو ان کی عورتوں کی پامال کرنے کی ہمت نہیں کرے گا، کسی ہندو انتہاپسند کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ان سے اپنے مذہبی نعرے زبردستی لگوائے۔ آج جو ہندو ان کے ساتھ کر رہے ہیں وہ انہیں کی کمزوری اور ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے ان کے ساتھ جو ہوتا ہے ہونے دیں جب تک ان لوگوں کو اپنے ساتھ خود ہمدردی نہیں ہو جاتی آپ بھی ان کوئی ترس نہ کھائیں۔

جب ہم نے آزادی حاصل کی تو اس وقت ہماری مجموعی تعداد ان سے بھی آدھی تھی یعنی آج تقریباً ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمان ہونگے جب کہ تقسیم ہند کے مسلمانوں کی اتنی تعداد نہ تھی یا اس تعداد سے بھی کم تھی لیکن ہم نے اپنے ایمان اور جذبے سے قربانیاں دے کر آزادی حاصل کر لی۔ ہمارے پاس تو اس وقت ظاہری مال و دولت اور ہندوؤں کے مقابلے میں افرادی طاقت بھی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ہم نے اپنے نظریے کی طاقت سے یہ ملک حاصل کیا۔

آج ان کے ذہن ہندو غلامی قبول کر چکے ہیں اس لیے یہ بیس کروڑ ہوتے ہوئے بھی اپنے شہریت کے بل پر چھن جانے والے حقوق بھی نہیں لے سکے بلکہ الٹا مودی اور آر ایس ایس کے شدت پسندوں سے قتل ہو رہے ہیں۔ دہلی میں مساجد کو جلایا جا رہا ہے قرآن نظر آتش کیا جا رہا ہے مگر ان مسلمانوں کی سوشل میڈیا پر وڈیوز دیکھیں تو یہ ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔

ان سے تو سکھ کسی حد تک بہتر ہیں جنہوں نے ہندو غلامی کی بیڑیاں تقریباً اتار پھینکی ہیں اور وہ اپنے الگ وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ سکھوں کا صرف ایک بار قتل عام کیا گیا مگر ان کی کسی عبادت گاہ کو آگ نہیں لگائی گئی ان کی مذہبی کتاب نہیں جلائی گئی لیکن مسلمانوں کو تو ہر دور میں ذلیل کیا اور یہ بد بخت ذہنی غلام مساجد و قرآن کی بے حرمتی کروا کر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔

یقیناً یہ لوگ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں کیونکہ ان کی غیرت بھی غلامی کی دلدل میں غرق ہو چکی ہے۔جب کسی قوم کے اندر خودمختاری ختم ہو جائے تو وہ اسی طرح ہندووٴں سے ذلیل و خوار ہوتی ہے یاد رکھیں کہ نظریہ پاکستان سے پہلے نظریہ خودی نے جنم لیا تھا وہ بھی علامہ اقبال نے ہی پیش کیا تھا اور پھر اسی نظریے پر مسلمان اکٹھے ہوئے جس نے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی آج ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر ایک بار دو قومی نظریے اور قائداعظم اور علامہ اقبال کی سوچ کو تقویت ملی ہے ، آج پاکستان میں رہنے والے مسلمان اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اقبال اور قائد جیسے دور اندیشی والے لیڈر عطا کیے جنہوں نے نا صرف مسلمانوں بلکہ اسلام کو بھی ہندو توا سے بچایا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :