ارطغرل اور لبرل

بدھ 3 جون 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا ڈرامہ آیا ہے جو حقیقی کہانی اور حقیقی کرداروں پر مبنی ہے ۔ہم نے عموماً دیکھا ہے کہ کسی فلم یا ڈرامے کی کہانی فرضی ہوتی ہے جسے کسی لکھاری کی صلاحیت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ڈرامہ کسی فرضی کہانی پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی داستان ہے ۔اس ترکی ڈرامے نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو قائی قبیلے کے چند سو افراد پر مشتمل لوگوں کی عظیم کہانی ہے جنہوں نے جذبہ ایمان کی طاقت سے دنیا کے تین براعظموں پر تقریباً چھ سو سال تک حکومت کی ۔


دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان چند سو افراد کا مقابلہ نہ کر سکیں یہی وجہ ہے کہ آج ہزار سال بعد بھی انکی داستان نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے ۔اس ڈرامے نے اسلام کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی جس دہشت اور بہادری کا مقابلہ کفار طاقت سے نہ کر سکے اسے مکاری اور ایک منظم سازش کر کے دہشتگردی کا نام دے دیا گیا ۔

(جاری ہے)

اس ڈرامے کا سب سے زیادہ افسوس لبرل طبقے کو ہوا ہے جن کو بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلموں ڈراموں میں بے حیائی اور واہیاتی تو نظر نہ آئی لیکن ارطغرل جیسے دڑامے میں شدت پسندی نظر آگئی ۔ پچھلے تقریباً سو سال سے ہالی وڈ اور بالی وڈ نے ہر قسم کا مواد دکھایا اور ریٹنگ کی دوڑ میں آگے نکلنے کیلئے فنکاروں کے کپڑے تک اتار دیے گئے مگر اس بے غیرتی پر کسی لبرل کو لب کشائی کرنے کی زحمت نہ ہوئی ۔

اسلامی طرز معاشرت پر بنے اس ایک ڈرامے نے لبرل طبقے کی نیندیں حرام کر دی ہیں کیونکہ ان کی دکانداری کو شدید خطرہ پڑ گیا اس کی وجہ مغرب سے ملنے والی وہ فنڈنگ ہے جس کو وہ اسلام کے خلاف استعمال کرتے تھے ،وہ طبقہ شدید پریشان ہے جو اپنے مغربی آقاوٴں سے پیسے لے کر اسلامی معاشروں میں مغربی طرز معاشرت کی ترویج کیلئے کوشاں تھا ۔مگر اس ڈرامے کے آنے سے ان کے مذموم مقاصد خاک میں مل گئے ہیں کیونکہ لوگوں نے اسلام کی بنیاد کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

۔
 اسلامی معاشرے کی جن اقدار کو ان لبرلز اور کفار نے سازش کر کے مغربیت میں دبا رکھا تھا وہ کھل کر سامنے آگئیں ہیں لوگوں نے اسلامی طرز معاشرت کو بے حد پسند کیا ہے ۔اور ممکنہ طور پر لوگ جس حد تک اس ڈرامے سے جڑ گئے ہیں اس سے لوگوں کی زندگیوں میں بدلاوٴ آئے گا یہی بات ہمارے نام نہاد لبرل طبقے کو ہضم نہیں ہو پا رہی ۔ ہمارے مقامی فنکاروں سے بھی اس ڈرامے کی مقبولیت برداشت نہیں ہو رہی اور اس میں بہانہ وہ اپنے روزگار کا ڈال رہے ہیں جیسے انکے کام سے ہماری انڈسٹری چاند پر قدم رکھنے والی تھی اور اس ترکی ڈرامے کو پاکستان ٹیلیوژن پر دکھا کر حکومت نے اس عظیم کارنامے میں خلل ڈال دیا ہو ۔

ہمارے فنکاروں کو تو شرم سے ہی ڈوب مرنا چاہئے یہ ہمیں فلموں اور سٹیج ڈراموں میں جو دکھاتے رہے اس سے آدھی قوم کو تو ویسے ہی تماشبین بن چکی ہے ہماری فلموں میں جو مواد دکھایا جاتا رہا اس نے معاشرے پر بہت برا اثر ڈالا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری قوم ہی خود کو بدمعاش اور مولا جٹ سمجھنے لگ گئی ۔ایسے مواد نے ہماری معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔

 اب ہمارے یہ نام نہاد فنکار کس منہ سے ایسے اسلامی مواد پر تنقید کرتے ہیں ان کو تنقید کرتے وقت اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے ۔اس ڈرامے پر بے تکی تنقید کرنے میں ہمارے ایک وزیر موصوف ہی مان نہیں جن کو چاند رات پر عوا م نے جس عزت سے نوازا تھا اس عزت کا جنازہ وہ اپنے ہاتھوں سے نکال رہے ہیں ، ارطغرل کو پاکستان میں دکھانے کا فیصلہ حکومت کا تھا اور وزیر صاحب اپنے ہی حکومتی فیصلے پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں اور ان پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :