فلاحی ریاست کا راز۔۔۔ سٹریٹ کرائم کا خاتمہ اور پولیس اصلاحات

ہفتہ 11 جنوری 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

انصاف سستا ہے ،پولیس میں اصلاحات کر دی گئی ہیں ، قانون نافذ کرنے والے ادارے فعال کر دیے گئے ہیں ۔ملک میں امن قائم کردیا گیا ہے۔ جان ومال کو تحفظ دے دیا گیا ہے ۔فکر کی کوئی ضرورت نہیں ۔سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں ۔قانون سخت ہے ،کوئی چڑیا پر نہیں مار سکتی البتہ ڈاکو بندے مار سکتے ہیں، ڈاکے ڈال سکتے ہیں ، مزدوروں کو لوٹ سکتے ہیں ،عورتوں سے زیور ،دوپٹا ،چادراورمردوں سے فون، موٹر سائیکل ،گاڑی چھین سکتے ہیں، فروخت کر سکتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ سے ذاتی لگژری گاڑی خرید سکتے ہیں ،کالے دھن کو سفید کرسکتے ہیں۔


چوری ڈاکے کی رقم اپنے خاندان پر استعمال کرسکتے ہیں ،اچھے سے اچھے ہسپتال میں علاج کراسکتے ہیں ۔شراب نوشِ جاں کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

راہ گیر ہو یا مقیم ،جس کی چاہیں بے عزتی کر سکتے ہیں ۔بندوق اور اسلحہ خرید سکتے ہیں ، علاقے میں شہرت کے لیے مشہور نسل کا کتا پال سکتے ہیں،انسانوں کو کتوں کے آگے ڈال سکتے ہیں۔ کتوں کی خدمت کے لیے انسانوں کونوکر رکھ سکتے ہیں ۔

چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں آسانی کے لیے’ ون ٹو فائیو‘ یا گھوڑا خرید سکتے ہیں ، دانے پہ دانہ ،ڈاکے پہ ڈاکاڈال سکتے ہیں۔ آپ چوں کہ چھوٹے درجے کے ’ وارداتیے ‘ ہیں،آپ کا نام ای سی ایل میں ہرگز نہیں ڈالا جائے گا ۔آپ بیرونِ ملک جاکر باعزت روزگار اپنا سکتے ہیں ، مزید پیسا کما سکتے ہیں۔ مملکت آپ کی خادم ہے ، ایک فلاحی مملکت آپ کے لیے اتنا کچھ ہی کر سکتی ہے ، آگے آپ کی مرضی ہے ،اگر اس کے باوجود بھی آپ ناراض ہیں توآپ کا حق ہے، کیوں کہ اپنوں ہی سے کوئی ناراض ہوتا ہے ،آپ کا اپنا ملک ہے آپ کو روٹھنے سے کون روک سکتا ہے ۔

جو جی میں آئے کیجیے :
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسبان اس کے
مژدہ ہو آپ کو تھانے کے بار بار کے چکر وں سے رفوچکر کر نے کا پرانا نظام بسلامت رائج ہے ، حسبِ روایت آپ کی اعانت کے لیے سرکاری اور عوامی نمایندہ پہنچے گا،جسے عرفِ عام میں ایم پی اے کہا جاتا ہے ،اس سے بڑا ایک نمایندہ ایم این اے کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے ، ان کو انسانیت کی خدمت کا درس ازبر ہے ، یہ کسی بھی ہنگامی حالت میں آپ کے مونس اور غمخوار ہیں ۔

آپ کا حق بنتا ہے کہ جب بھی شام ، رات یا دن دیہاڑے کوئی واردات سر انجام دیں تو ان کے آستانے پر بروقت حاضری دے کر ثوابِ دارین حاصل کریں ۔آپ کے دونوں جہاں نہ سنوار دیں تو آپ شکوہ اربابِ وفا کر سکتے ہیں ۔
دکھ کی بات ہے کہ ان نمایندوں کو عام طور پر لوگ گھریلو جھگڑوں میں میں ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھلا ان بھلے مانسوں کا گھریلوبکھیڑوں سے کیا سروکار ہے،تاہم اگر گھریلو جھگڑے انھی سے حل کرانا ہیں تو کم سے کم ایک دوسرے کے ’ تالو ‘ ضرور کھول دیاکریں تاکہ بات تھانے کچہری ہسپتال، میڈیکل رپورٹ اور پرچے ورچے تک جا پہنچے ، جب جھگڑے کی ایک ترتیب بن جائے گی تو مخلص عوامی نمایندہ اکثر آپ کے ساتھ آتا جاتا رہے گا ، آپ کا دل بہلاتا رہے گا مگر مقدمے میں کامیابی کے لیے آپ پر واجب ہے کہ آپ بے گناہ نہ ہوں ، آپ کے ذمے کچھ بھی گناہ ہوا تو آپ کی بھرپور مدد کی جائے گی کیوں کہ قانون بڑا سخت ہے، بے گناہ کی مد د کی تو کیا کی ۔

مزا تو تب ہے کہ آپ کے قصور کے باوجود آپ کو مکھن سے بال کی طرح نکالا جائے ،کیوں کہ ’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔ 
کہانی ابتدا سے شروع کرتے ہیں ،بعض بچے ڈاکے ڈالتے ہیں ، غلطی انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور بچے تو غلطی کرتے ہی ہیں ، اگر کوئی بچہ ابھی ابتدائی مراحل میں ڈاکا زنی میں تربیت حاصل کررہا ہے تو اسے بھرپور تحفظ دینا ایک فلاحی مملکت کی ذمہ داری ہے ۔

کیوں کہ بچہ غلطیوں ہی سے سیکھے گا ،بقول حالی 
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑے ہیں 
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں 
لہٰذا اگر کوئی بچہ ابتدائی وارداتوں میں غلطی کرتا ہے تو کھل کے کرے ۔رہا سوال اس کے پکڑے جانے کا تو ان شاء اللہ اس جانِ معصوم کے مکمل تحفظ کا اہتمام کیا جائے گا اور اسے اس کی معصومانہ لغزش کا ہر ممکنہ فائدہ پہنچایا جائے گا ۔

اس کی سفارش کے لیے جملہ سیاسی و سماجی شخصیات کو متحرک کر دیا جائے گا ۔ احتیاطاً تھوڑا بہت جمع خرچ پاس رکھیں ،کیوں کہ تھانے میں موجود بعض اہل کار اگر رشتوں کا پاس نہ رکھیں یعنی قانون کے پابند ہوں تو انھیں نقدی کی صورت میں عدل و انصاف اور رحمدلی پر اکسایا جاسکے ۔’یہ وہ راستا ہے دیارِ وفا کا‘ کہ آپ ایک فلاحی مملکت میں موجودتھانوں میں دوستانہ ماحول محسوس کریں گے ۔

نادان لوگوں کی باتوں میں مت آئیں ، آج تک کتنی لاشیں تھانوں سے نکلی ہیں ۔اِکا دُکا واقعات کو دل سے لگا لینا کہاں کی دیدہ دلیری ہے ۔ قانون بہت سخت ہے مگر ہزار راستے ہیں، لہٰذا اگر کوئی نوخیز ڈکیت غلطی سے گرفتار ہوجاتا ہے تو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ،ایک نہیں تو دوسرے دن کا کھانا آپ اپنے گھر میں جا کر کھائیں گے۔ تھانے والوں کو شرمندگی کا احساس کرادیا جائے گا کہ انھوں نے کیوں کسی شریف جان کو جائے وارادت سے رنگے ہاتھوں دھر لیا تھا ۔

پریشان رہنا چھوڑیے ۔کون ہے جو نہیں ہے آپ کا غمخوار ،اہلِ محلہ افسوس کے لیے آپ کے گھر آئیں گے،تھانے والوں کوغائبانہ گالیاں دے خراجِ تضحیک پیش کریں گے ۔ ٹینشن سے کیا حاصل ، آپ خوش رہیں ،اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جان جوکھوں میں ڈال کے ڈکیتی سے کمائی گئی نقدی اور چھینے گئے زیورات کا تخمینہ و میزان کریں۔ اپنا غم غلط کرنے کے لیے اہلِ خانہ کے ساتھ کپڑوں او ر جوتوں کی خریداری کریں ۔

آپ ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں ،وہم چھوڑیں چند روز تک آپ پکے پکے رہا ہیں۔
رہی بات متاثرین کی ،جن کے لیے آپ نے خطرہ مول لیا ،رات کو سانپوں بچھووٴں کی پروا نہ کی ، رات کی نیند ضائع کی ۔ان کو روکنے کی زحمت کرنا پڑی، مسافرعورتوں کو لوٹنے اوربے حرمتی کرنے میں ماں، بہن اور بیٹی ایسے پاکیزہ رشتوں کو نظر انداز کرنا پڑا ۔ آنکھوں پر بے غیرتی اور بے حیائی کا خون چڑھاناپڑا۔

کیا تھوڑا سا صدمہ تھا آپ کے لیے، کون ہے جو اس طرح سینے پر سل رکھے ،کون ہے جو انسان سے جانور کا روپ دھار لے ،کون ہے جو انسان کے روپ میں درندگی کا عمل سرانجام دے ،لٹنے والوں کو کیا پتا کہ آپ کس کربِ مسلسل میں مبتلا رہے ۔ آپ کے ذہن میں کوئی ایک دکھ ہے ؛ ایک تو یہ کہ آپ ایسے شریف زادے کو کوئی دیکھ نہ لے ، پھر آپ تھانے میں پکڑے نہ جائیں ،مبادا آپ کو دوتین گھنٹے حبس ِ بے جا میں رہنا پڑے ، ہوسکتا ہے کوئی ایم پی اے بروقت تھانے نہ پہنچ سکے۔

بھلاکوئی ایک دکھ ہے دادا،پردادا کے نام پر حرف آجائے ،ان کی روحیں کیا کہیں گی ، باپ کی پگڑی پر داغ لگ جائے ،جو گاوٴں کا سر پنچ اور معزز شہری ہے۔
 راہ چلتے سڑکوں پر یونہی لٹنے والے کسی رہزن کا دکھ کیا جانیں ۔پولیس والے شریف اورمہذب گھر انے کی دیوار پھلانگ کر جتنی بار آپ کو پکڑنے آئے، حرام ہے جو انھوں نے ذرا بھی محسوس کیا ہو مگر پھر بھی معاشرے میں عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے چاہے بناوٹی ومصنوعی ہی کیوں نہ ہو ۔

یہ لٹنے والے راہگیر کیا جانیں کہ ایک بدقماش و بدمعاش کی کتنی معاشرتی اور معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔آخر زمینوں کی آمدن ہوتی ہی کتنی ساری ہے۔شراب و کباب کا اہتمام تو ممکن نہیں کہ باپ کے کاروبار پر منحصر کیا جائے ۔اللہ نے ہاتھ اور صحت عطا کی ہے ،محنت مزدوری پر ضائع کرنا تو کفران ِ نعمت ہوگا کیوں نہ چند سیکنڈ میں واردات سرانجام دی جائے اورہفتہ خوشحالی منایا جائے ۔

ایک ٹی وی کمرشل کے مصداق ’ لوگوں کاکام ہے باتیں بنانا، ڈکیتی سے کیا شرمانا‘۔
کسی قانون پسندڈاکو کا قول ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے ۔اول حکومت کو ضابطہ اخلاق طے کرنا چاہیے کہ راستوں میں لٹنے والے گھروں میں جاکر کسی بھی معززڈاکو اور لٹیرے کو گالی نہ دیں تاکہ اِدھر اُدھر کے لوگ واردات کی بیہودگی سن کر فضول بکواسات نہ کریں ، جب ان کو لوٹا نہیں گیا تو انھیں کسی کا ہمدرد بننے کی کیا ضرورت ہے ۔

ان کی غائبانہ گالی گلوچ سے واردات کا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے ، بلکہ دکھ بھی ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے مزیدوارداتیں کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ آخر ڈاکو کے اندر بھی دل ہوتا ہے۔دوسرے حکومت کو ایسے مسافروں ، راہگیروں اور مزدوروں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ جائے واردات پر گئے ہی کیوں ، اگر وہ ناہنجار وہاں سے نہ گزرتے تو ڈاکا زنی کا شکار نہ ہوتے ۔ اب سوال اٹھے گا کہ ڈاکو گھر میں جاکر جو واردات کرتے ہیں تو اس میں گھر والوں کا کیا قصور تو جناب اتنی کمائی کریں، جس سے صبح شام کا چولھا جلے ۔

کون غیرت مند اس بات کو پسند کرے کہ ایک مزدور یا شریف آدمی کے گھر میں اتنا مال جمع ہوجائے، جس کی وجہ سے بے چارے کام چو ر لٹیروں اور حرام خور پالتووٴں کے دل کو ٹھیس پہنچے اور انھیں اپنے معصوم بچوں کو ایسے گھروں کا صفایا کرنے پر اکسانا پڑے ۔ نیکی کا تو زمانہ گیا ۔
 قانون بڑا سخت ہے،جس طرح قیامت کے آنے کی خبریں بڑی مدت سے سن رہے ہیں لیکن خدا کی بے نیازی سے بچتے چلے آرہے ہیں ، اسی طرح انصاف کی فراہمی ،جان ومال کے تحفظ اور پولیس کی اصلاحات کی خبریں بھی سنتے سنتے کان پک گئے ہیں ۔

کوئی کب تک برداشت کرے آخر انسان کے اندر بھی پِتّا ہوتا ہے ، کیوں سلگ سلگ کے راکھ ہوجائے ۔نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ،کوئی ڈاکو نہ بنے تو کیا کرے۔
ڈاکو نگری کا اپنا مزاج ہے ۔ کسی ڈاکو اور چور کے حقوق وفرائض کیا ہیں، ایک ڈاکواور چوراچھی طرح جانتا ہے ۔اسے اپنے بہیمانہ کردار اداکرنے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،سادہ لوح مخلوق کیا جانے ۔

سٹریٹ کرائم ہو ، دن دیہاڑے ڈکیتی کی واردات ہو ، موبائل چھیننا ہو ، کسی کی جیب سے نقدی نکلوانی ہو، ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ ہو ، کسی قبضہ گروپ کا ساتھ دینا ہو ، بنک میں ڈاکا ڈالنا ہو ، کسی معزز شہری کو نشانہ بناناہو ، خود کش حملے کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا ہو ، کسی پولیس کی گاڑی پر گرنیڈ پھینکنا ہو ،کسی تھانے کو اُڑانا ہو ،کسی سنار کی دکان کا صفایا کرنا ہو، کسی مزدورکی جیب سے علاج کے پیسے نکلوانا ہوں، کو ئی’ خالہ جی کا باڑا‘ نہیں۔

یہ تو شفقت ہوتی ہے کسی فلاحی مملکت کی ،جہاں ایسے واقعات کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا ۔ آج تک کتنے سٹریٹ کرائمز پر پھانسیاں اور قیدیں ہوئی ہیں ۔کسی کی آگ میں کون جلتا ہے ،سیاست نگری کے آپس کے جھگڑے ختم ہوں تو وہ سٹریٹ کرائمز کا سوچے ۔اراکین پارلیمنٹ بے چارے تو ایک دوسرے کے کیڑے نکالتے رہتے ہیں اور کیڑے نکالنے کے لیے باقاعدہ وزارتیں دی جاتی ہیں ۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں بے چارے ڈاکو ہی نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور انھیں لٹنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ ہر حکومت اپنی نااہلیوں کا ملبہ ڈاکووٴں پر ڈال دیتی ہے کہ یہ برے لوگ ہیں۔ اسے کہتے ہیں’ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘ بقول غالب 
کوئی بتلائے یا ہم بتلائیں کیا
کون برا کون اچھا ہے ،یہ اوپر کی باتیں ہیں۔

ڈاکووٴں کا المیہ یہ ہے کہ یہ واحد کمیونٹی ہے ،جس کی کو ئی باقاعدہ یونین نہیں ہوتی ۔گینگ ،جتھے اورگروہ وغیرہ ہوتے ہیں ،جس طرح شہد کے چھتے میں ملکہ مکھی ہوتی ہے ،ڈاکووٴں کے گروہ میں ایک سرغنہ پایا جاتا ہے ۔ تاریخ کے لال سرخ صفحات ڈاکووٴں لٹیروں کے ذکرسے بھرے پڑے ہیں مگر فی زمانہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں یعنی ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

بے پروائی کی حد ہوتی ہے،جب قانون کی بات آتی ہے ، قانون خاموش ، انسان خاموش ، جج خاموش ،پردھان خاموش ،لاقانونیت کی حد ہے ہر شخص محفل کی رنگینیوں کو جلا بخشنے کے لیے نظام لوہار ، چراغ بالی ، پھولن دیوی، جبرو ، جگا، جنوں سے چنگیز، ہٹلر اورہلاکو کے قصے بڑے طمطراق سے بیان کرتے نہیں تھکتے اوربریکنگ نیوز کی طرح ڈکیتی کے تازہ واقعات ، پولیس کی بے بسی اور حکومت کی نااہلی کے قصے بیان کر کے نئی نسل کا حوصلہ بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں ۔

تب کسی کو ڈاکو برے نہیں لگتے ،بس جب کوئی اپنا پیارا لٹا پٹا گھرآتا ہے تو پھر سارے ڈاکو بر لگنے لگتے ہیں ، یہ دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے ۔
 کسی پڑھے لکھے ڈاکو سردار نے اپنے ا قوالِ زرّیں بیان کرتے ہوئے فرمایا حکومت اور پولیس ہمارے معاملے میں مخلص اور ٹھیک ہو جائے تو ہم ڈاکو خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے ،جب ہم حکومتی کارندوں کے بڑے بڑے کام نکالتے ہیں ، جب ہمارے لواحقین اور بھائی ان کے بڑے بڑے جلسے کراتے ہیں ، ان کی ائیر کنڈیشنرزگاڑیوں کے آگے پیچھے تپتی دھوپ میں وارے وارے جاتے ہیں تو پھر یہ ایم پی ایز،وزیر مشیر ہمارے وفادار کیوں نہ ہوں ۔

عزت کو عزت ہے، یہ ہماری عزت کرتے ہیں ،ہم ان کی عزت کرتے ہیں ،ان کی دھاک اور دھندا بھی چلتا رہتا ہے، ہمارا ’ بکرا‘ اور’ پانی‘ بھی چلتا رہتا ہے ۔رہ گئی پولیس تو پولیس کے اندر ہمارے کتنے بھائی ہیں، جو جان سولی پر رکھ کر ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہمارا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں ۔ دنیا یہ بتائے کتنے باوردی لوگ وارداتوں میں ملوث پائے گئے ، چند روز میڈیا کا مینڈک اچھلا ، اخبار کا ڈانسر ناچا ، پھر ’چپ گھڑپ‘ ہوگئی ۔

نوکری اور ڈکیتی دونوں بحال، کوئی ایک شخص تو کہے کہ کسی سرکاری اہل کار کی واردات سے ملکی قوانین اور ضابطوں کا ربط و تسلسل ٹوٹا ہو، بس چند روز خبر گرم ہوئی ،یوں کردیں گے،یاں کردیں گے لیکن کیا ہوا وہی فضول بھاں بھاں باں باں ، جسے سنتے کان پک گئے ،لیکن آج تک کوئی قانون نہ بنا ۔ سفارش در سفارش بے نقاب ہوکر بھی بے نقاب نہ ہوئی بلکہ چاردانگِ عالم طاقت کے ڈنکے بجنے لگے کہ تھانے سے بندہ چھڑانابھی کوئی کام ہے ۔

اگر منصف ہوتو بولو؛خدا قریب یا مکا،بھیڑ بڑی یا لیلا،بھینس بڑی یا کٹا،،تلوار بڑی یا چاقو،پولیس بڑی یا ڈاکو! سب جانتے ہیں ، سب کو پتا ہے مگر شہر میں اونٹ بدنام والی بات ہے ، ڈاکوؤں نے دن دیہاڑے یہ کردیا،وہ کردیا ،سارے بے نمازوں والے عذر ہیں اگر پولیس نہ چاہے تو’ میڈا سائیں‘ ڈاکو بے چارے کس باغ کی مولی ہیں۔ 
یاد رہے!جب تک ملک و قوم کے منتخب نمایندوں اور محفوظ پولیس کے مابین ڈیل چلتی رہے گی ،’چور سپاہی، بھائی بھائی ‘کی قوالی جاری رہے گی توسٹریٹ کرائم چلتے رہیں گے ، راہگیر لٹتے رہیں گے ، سڑکوں پر خون رواں ہوتا رہے گا ،گھروں میں جوان بیٹوں اور بیٹیوں کی لاشیں پارسل ہوتی رہیں گے۔

مجبور باپ کی جیب خالی ہوتی رہے گی۔ معصوم بیٹے اوربیٹیاں وحشت اور درندگی کا نشانہ بنتی رہیں گی ،جب تک ڈکیتی اور راہزنی میں ملوث ناپاک درندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی تو ان کے پالتوپِلے جڑی بوٹیوں کی طرح اگتے رہیں گے ، ٹِڈی دَل کی طرح ملک و قوم کا امن چاٹتے رہیں گے اور ہر واقعہ کے بعد میڈیا والے اعلان کرتے رہیں گے کہ جائے وقوعہ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کر دیے گئے ہیں توایسی صورت میں لوگوں کے جان و مال کو کبھی تحفظ نہیں دیا جاسکے گا ۔

سٹریٹ کرائم یا راہزنی کو عام طور پر ہلکا پھلکا جرم جانا جاتا ہے ،یہی وہ گھمبیر ترین غلطی ہے، جوبدترین جرموں اور وارداتوں کے بیج بوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی حکومت ،اگراس جرم کو سنجیدہ لے لے تو ایک فلاحی مملکت کا قیام نہایت آسان ہوجائے گا ، جس میں لوگوں کو جان ومال کا تحفظ ملے گا، جنسی تشدد اور سفاکانہ قتل نہیں ہوں گے، ناقابل اظہار جرائم کا دور دور تک شائبہ تک نہ ہوگا ۔

اگر نئے ابھرتے ڈاکووٴں کے لیے سخت ترین سزائیں مقرر کردی جائے تو ان کی پچھلی نسلیں بھی تائب رہیں گی لیکن اگر دہشت گردی کے یہ پلے پرورش پاکر بڑے ہوگئے تو پھر ان کے دندان آز کو لہو چاٹنے سے کوئی نہیں روک سکے گا ،صرف احتجاج ہوں گے، جلاؤ گھیراوٴ،پتھراوٴ ہوں گے،گاڑیوں کے شیشے ٹوٹیں گے ، املاک کو نقصان ہوگا ،خوف و ہراس پھیلے گااور بس ،بیرونی ایجنسیوں،خود کش دھماکا بازوں سے نمٹنے کے لیے ضربِ عضب اور ردالفسادکے اہتمام پر صدآفرین ،ہزار شاباش مگر گھر کے بھیدی کو تاڑنے اور آتشِ گل کو بجھانے کی ضرورت ہے ، یاد رہنا چاہیے داخلی انتشار خارجی خطرات سے کہیں زیادہ مہلک پیراسائٹ ہوتا ہے ،جو اپنے میزبان کو اندر ہی اندر کھاجاتا ہے ۔

اس ناسور سے بچنے کے لیے تھوڑا سا کام کرنے کے ضرورت ہے اور وہ چھوٹے جرم کو سنجیدہ لینا ہے ۔یہ سنجیدگی کسی بھی ریاست کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے نسخہ کیمیا ہے ۔
بات عجیب لگے گی مگر کسی بھی رہزن یا سٹریٹ کریمنل کے لیے کم سے کم دس سال قید بامشقت اور پانچ سے دس لاکھ روپے کاجرمانہ آئین کا حصہ بنادیجیے تو دہشت گردی کے تمام جراثیم اپنی موت آپ مر جائیں گے ۔

ایک تاریخ لکھی جائے گی جو نوشیرواں عادل کے مزار پر دستک دے گی ، جو فاروق اعظم کے عدل کی تجدید کرے گی ۔ اگر آپ ایسی مملکت کی تشکیل کر جاتے ہیں تو ریاستِ مدینہ کا تصور نہایت آسانی سے پایہ ٴ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے بصورتِ دیگر فقط باتیں ہی باتیں ہیں۔ یقین کیجیے یہ سزااور آئینی ترمیم مذہب سے متصادم نہیں ہوگی بلکہ نسلِ نو کی تربیت کے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہوگی ۔

بیٹی کے جہیز یا مریض کے لیے ہسپتال جانے والے بے بس انسان لٹیں گے نہ ہی کسی مزدور کی لاش ڈکیتی کے بعد گھر آئے گی ۔ بس انسانیت اور مخلوقِ خدا کی بقا کے لیے آئین میں اس آرٹیکل کا اجرا کر دیجیے۔ پولیس اصلاحات کا وعدہ پورا کردیجیے ،تھانوں میں شریفوں ،بے بسوں ،مزدوروں ،کوچوانوں ،بیواؤں ،یتیموں کے لیے باتمیزو بااخلاق استقبالیہ قائم کر دیجیے۔

شرافت اور انسانیت کے ماروں کا پولیس اصلاحات میں تھوڑا حصہ مقرر کر کے تھانوں میں عزت نفس بحال کر دیجیے ۔ جرم کو جرم قرار دے دییجیے ،چھوٹے سے چھوٹے انسانیت کے دشمن کی کھوپڑی میں سزا کا تعین بھر دیجیے ۔ عام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے چوروں ڈاکوؤں کی ناک میں نکیل ڈال کر چوراہے پر نچا دیجیے ،لٹکا دیجیے ، تھانے داروں کو علاقے کی چوری کا جواب دہ فرمادیجیے تو لوگ جانوروں کے بجائے اپنے بچوں کے ساتھ سکھ کی نیند سو سکیں گے ۔

حضرت عمر کے عظیم قول کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے بھوک سے مرنے والے کسی کتے کی موت پربھی اللہ کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس پیدا کر لیجیے۔ایک فلاحی ریاست کے قیام کے لیے بس تھوڑا سا یہ کام کر دیجیے اور رہتی دنیا تک زندہ جاوید رہیے ۔ 
یاد رکھیے ! اگرپہلے کرنے والے کام ہم ہمیشہ بعد میں کرتے رہے تو ہماری غفلت کی کوکھ سے ایک ایسی مخلوق جنم لے گی ،جو امن کو ریزہ ریزہ کر دے گی اور فلاحی مملکت کی تعمیرکا خواب چکنا چور ہو کر رہ جائے گا۔

اگرہم نے وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھا ، درست تشخیص یابروقت علاج نہ کیا تو ڈکیتی کا ناسور بگڑکر رسنا شروع ہوجائے گا۔اگر ہم ناچاہتے ہوئے بھی درندہ صفت ناپاک پلوں کی پرورش کرتے رہے تومہذب دنیا میں جنگل کا قانون رائج ہوجائے گا ،بدترین مخلوق کا راج قائم ہوجائے گا ۔ چار سو ’ہو کا عالم‘ ہو گااور ’ہی ہی ہاہا‘ ایسی بدروحوں کی آوازوں کا شور سنائی دینے لگے گا۔

اگر ہم نے جنسی تشدد ، اغوا برائے تاوان ،روزانہ کی چوری ڈکیتی ایسے ناقابلِ اظہار اور شرمناک واقعات سے عبرت نہ پکڑی اورانسانی شکل میں دندتاتے درندوں اور خاص طور پر ان کے پلوں کا خاتمہ نہ کیا تو یہ دھرتی کسی فلاحی مملکت کے بجاے من مانی کا ایک ایسا خوفناک جنگل ہوگی،جس میں ہر سو درندگی ہی درندگی ہوگی ،جس کے بعد ناپاک درندوں کو ان کی درندگی سے روکنا ناممکن ہو جائے گا ۔

مقامِ افسوس یہ ہے کہ ان چند گنے چنے شیطانوں کی سیاہ کاری اور غلیظ کردارکی وجہ سے جنگل کے جانور وں کو اشرف المخلوقات مخلوق کے نام سے بھی گھن آنے لگے گی ۔
اس سے پیشتر کہ ہم ا پنی سیاہ کاریوں اور ناپاک کرتوتوں کی وجہ سے امت محمدی سے نکال دیے جائیں ،پہلی قوموں کی طرح ہم پر کوئی عذاب مسلط کردیاجائے ،ہمارے چہرے ریچھوں،بندروں اور سوٴروں کی شکل میں مسخ ہوجائیں اورایسی حالت میں کائنات کی سب سے بڑی عدالت کے ایک کٹہرے میں ہم اور ہمارے سفارشی ،جب کہ دوسرے میں مظلوم اور مظلوموں کا بے گناہ لہو اپنا بیان ریکارڈ کر ارہا ہو،جس کے بعد کسی سفارشی کی سفارش کام نہ آسکے اور ہم اللہ کے عذاب سے بچنے کی اپیل کا حق بھی کھو بیٹھیں ،ہم اور ہمارے سفارشی جہنم کا ایندھن بن کر رہ جائیں۔

کیا ہی بہتر ہے کہ توبہ کادروازہ بند ہونے سے پہلے ہم جاگ جائیں،کاش ہم جاگ جائیں ۔۔!!! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :