پاک امریکا اور ایران تعلقات!

منگل 7 جنوری 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

گزشتہ دنوں سے امریکا اور ایران میں لفظی گولہ باری جاری ہے جس کیوجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ھوگئے ہیں۔ اگر پس منظر پر جانا چاہوں تو ایران کی القدس فورس کے سربراه جنرل قاسم سیلمانی کو بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون سے شہید کردیا جاتا ہے۔ جنرل قاسم کی شہادت سے ایرانی سپریم لیڈر اور قوم ایران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ہم نے جنرل قاسم کے جنازہ کا منظر دیکھا تو دوسری جانب ایران کا امریکا کو بھرپور انداز میں جواب دینے کا اعلان بھی سنا۔ادھر عراقی وزیر اعظم و پارلیمنٹ نے امریکا سے کہا کہ وہ خطے میں امن کے لیے عراق سے نکل جاۓ۔مگر ڈونلڈٹرمپ کہتے ہیں کہ ہم نے عراق کی بیسز پر اربوں ڈالر لگاے ہیں ایسے نہیں جانے والے اور ادھر امریکہ ایران کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ کوئی کاروائی نا کرے۔

(جاری ہے)

امریکا کے مطابق جنرل قاسم امریکا پر کے لیے خطرہ تھے۔ ادھر یہ واضع کرنا ضروری ہے کہ 1989 میں جنرل قاسم 200 ایرانی فوجیوں کے ہمراہ ایس۔ایس۔جی کے پاس گوریلا وار کے لیے آے تھے۔اسی طرح عراق میں روضہ امام علی رضہ و دیگر اہل بیت کے مزارات کے دفاع کے لیے خود جنرل قاسم میدان کارساز میں اترے، اسی طرح داعش کو عراق میں شکست دینے میں جنرل قاسم کا اہم کردار ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی ایران میں ایک سپہ سالار  کی بجاے ایک ہیرو کی حیثیت رکھتے تھے اور ایرانی سپریم لیڈر کے بہت قریبی تھے گویا ایران اب امریکا کو جواب دینے پر مجبور ہوگا جسکا ایرانی سپریم لیڈر نے قوم ایران سے وعدہ بھی کیا۔ ادھر مائک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلیفون کیا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ خبر ہے کہ امریکا نے پاکستان نے بلوچستان کی سر زمین اپنے دفاع کے لیے مانگی تھی۔

بہر حال اگر ایسا ہوتا تو ایران کسی بھی امریکی تنصیب کو ٹارگٹ کرنے پر مجبور ہوتا اور یوں پاک ایران تعلقات خراب ہوتے۔ پاکستان کے مارخوروں کو ہر چال کا علم تھا اور پاکستان نے بہترین خارجہ پالیسی تشکیل دی۔اس خارجہ پالیسی سے پاکستان بہتر سمت سفر کرسکتا ہے۔ بہرحال 1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ایران نے پاکستان کو سب سے پہلے ریاست تسلیم کیا۔

اسی طرح پاکستان کا پہلا دورہ کرنے والی لیڈر شپ ایران کی تھی۔1965 کی جنگ مرن ایران کا اہم کردار تھا نرسز اور میڈیکل سہولیات کے ساتھ ساتھ ایران نے اس وقت 5000 ٹن پیٹرول پاکستان کو تحفہ میں پیش کیا۔ بھارت نے 1965 کی جنگ کے بعد خود تسلیم کیا کہ ایران نے پاکستان کو سپورٹ کیا۔ دوسرے اسلامی ممالک جن میں سرفہرست سعودی عرب کا بھی اہم کردار تھا۔

آج ایران و پاکستان تعلقات اور تاریخ پر چند جملے لکھنے اس لیے ضروری تھے کہ کچھ لوگ تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر صحافت کا رنگ اوڑھ چکے ہیں۔ سب سے اہم 1971 کی جنگ میں ایران ایک مرتبہ پھر پاک فوج کے ساتھ تھا۔ اس وقت کے ایران کے شاہ نے پاکستان کی سفارتی و دفاعی سپورٹ کی۔ 1971 میں شاہ ایران نے بھارت کی مہم جوئی کی مخالفت کی اور فارسی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ھوے کہا "ہم 100 فیصد پاکستان کے پیچھے ہیں"۔

آج تحریر کا مقصد کسی خاص طبقہ کو سپورٹ کرنا نہیں بلکہ غلط پروپیگنڈا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔
پاکستانی حکومت کو اس وقت کم از کم جنرل قاسم کے قتل پر افسوس کا ہی اظہار کر دینا چاہیے تھا مگر افسوس! کشمیر محاذ سے لے کر اب ایران محاذ پر ہم پھر غلطی کرنے جا رہے ہیں۔ آئ۔ایم۔ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک، سعودیہ کی مقروض حکومت کبھی خودمختار ریاست نہیں کہلا سکتی۔

یہ ریاست وائٹ ہاؤس کی غلام نظر آتی ہے گرین ہاؤس (گنبد خضری) کی نہیں! صدر ٹرمپ اپنا ٹرمپ کارڈ کشمیر کے بعد اب ایران پر چل دیے ہیں۔
ایک طرف ایک ریاست کا سپہ سالار بلکہ ایران میں جنرل قاسم سلیمانی کی حیثیت ایک ہیرو جیسی تھی۔ایرانی سپریم لیڈر سے لے کر عوام ایران جنرل قاسم سے محبت کرتی تھی،تو دوسری طرف پاکستان اس وقت 106 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔

قرض کی اس دلدل اور معاشی پستی کی وجہ سے پاکستان اس وقت کسی بھی جنگ کا متحمل نہیں ھوسکتا۔ خطے میں امن کے لیے جہاں ہمیں ٹرمپ کے ٹرمپ کارڈز سے بچنا ہے وہیں امن کے لیے دفتر خارجہ کو مزید ایکٹو ہونا ہوگا۔ اگر امریکا و ایران میں مہم جوئی ہوئی تو اسرائیل بھی ایران کے نشانے کی لپیٹ میں آے گا۔ ادھر یمن کے حالات ہیں یا پھر افغان امریکا تعلقات سب برباد ھو جائیں گے۔

پاک بھارت تعلقات بھی امریکا ایران ممکنہ مہم جوئی سے خراب ھوسکتے ہیں۔ ایسے میں چین، روس، ملائيشيا، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوگا۔ اس وقت بدلتی ہوئی مشرق وسطیٰ کی حالت کے پیش نظر جہاں پاکستان کو آگ پر پانی پھینکنا چاہئیے وہیں امریکا سے بھی مطالبہ کرنا چاہئیے کہ وہ عراق و افغانستان سے نکل جاۓ تاکہ خطہ پر امن ھو جاۓ۔

امریکا کی خطے میں موجودگی حالات یکسر بدل کر رکھ سکتی ہے۔ایران نے وہیں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے سر کی قیمت بھی لگا رکھی ہے جو آگ کو مزید بڑھانے کے مترادف بے۔
پاکستان کو امریکا سے تعلقات بنانے ہیں اور ایران سے بھی تعلقات مضبوط رکھنے ہیں مگر دوسری طرف محفوظ بھی رہنا ہے شائد ٹرمپ کے کشمیر پر ٹرمپ کارڈ کو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اور کسطرح ٹرمپ اب پھر افغان طالبان و امریکا تعلقات کو نیست و نابود کر رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا ہوگا کیونکہ قرآن پاک ارشاد ہے کہ:
اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 ) ۔
میں حیران ہوں کہ کشمیر حالات کے بعد اب ایران حالات پر بھی اؤ۔

آئ۔سی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ یو۔این۔اؤ اور سیکورٹی کونسل کا نا اجلاس بلایا گیا ہے اور نا ہی امن کی کوششیں کی جارہی ہیں گویا UNO اور OIC محظ نام گئے کام ختم ھوگئے۔ خطے میں امن و سلامتی کے لیے دعاگو ہوں کیونکہ ایشیا ہے تو پاکستان اور پاکستان ہے تو ہم ہیں۔اللہ‎ خطہ پاک و ہند اور مشرق وسطیٰ کی خیر کرے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :