17 جون، 14 خون، کہاں ہے قانون؟

بدھ 17 جون 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

یوں تو برصغیر پاک و ھند کی تاریخ میں انگریز حکومت نے بہت سے مظالم ڈھاے مگر سانحہ جلیانوالا باغ ایک تاریخی سیاہ ترین سانحہ تھا۔ یہ وہ واحد سانحہ تھا جس میں ریاستی محافظوں نے عوام الناس پر پراسرار عام گولیاں چلایں اور ہزار ہا افراد زخمی و شہید ہوے۔
پاکستان بننے کے بعد یوں تو بہت سے سانحات رونما ہوے مگر 17 جون 2014 کو وہ سانحہ پیش آیا جس نے عالم دنیا تک کو آگاہ اور ہلا کر رکھ دیا۔

17 جون 2014 کی رات کم و بیش 12 بجے پولیس نے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر اور مرکزی۔سیکرٹریٹ۔تحریک منہاج القرآن پر دھاوا بول دیا۔ معلوم ہوا کہ پولیس بیریئر ہٹانے آئ ہے مگر دوسری جانب اس وقت کے ناظم اعلیٰ۔منہاج القرآن شیخ زاہد فیاض حسین اور عوامی تحریک کے سیکرٹری۔

(جاری ہے)

جنرل خرم نوازگنڈاپور نے پولیس کو لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ دیکھایا جس کے تحت بیریر لگاۓ گئے تھے مگر دوسری طرف پولیس بیریر ہٹانے کی ضد میں تھی جس پر ساری رات عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتیں رہیں۔

ایک طرف حکومتی انتظامیہ تھی تو دوسری جانب نہتھے کارکن جو اپنے دفاع میں پولیس پر پتھراؤ کرتے تھے۔ یہ تمام مناظر ٹی۔وی پر براہ راست جبکہ اخبارات کے نمائندے بھی اس کو کوور کررہے تھے۔ صبح کے کم و بیش 11.30 بج چکے تھے کہ پولیس نے ڈائریکٹ فائر کھولے اور بیک وقت 14 لوگ شہید اور 100 سے زیادہ زخمی ہوے۔ ان 14 شہدا میں 2 خواتین تھیں جن میں ایک حاملہ خاتون تھیں۔

یہ تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب قائد اعظم کے پاکستان میں جان کے محافظوں نے ہی جانیں لیں۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا گھراسی ماڈل ٹاؤن تھا، اس وقت کے وزیراعلیٰ صاحب نے پریس کانفرنس کی اور یک رکنی جوڈیشل کمیشن بنایا جس کی صدارت جسٹس باقر  نجفی نے کی اور عوامی تحریک نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ وزیراعلیٰ صاحب نے فرمایا کہ اگر اس انکوائری میں میرا نام ہوا تو میں اسی وقت مستعفی ہوجاؤنگا۔

پھر ھم نے دیکھا کہ جسٹس باقر نجفی صاحب کی رپورٹ کو کیسے دبایا اور پبلک کروایا گیا اور کون مستعفی ہوا۔ ھم نے دیکھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے کارکنان کے انصاف کے لیے اسلام آباد لانگ مارچ کرنا پڑا ادھر وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھی تب آزادی مارچ کیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اول دن سے ساتھ کھڑے رہے۔ اسی طرح ھم نے دیکھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب کی مداخلت کے بعد ایف۔

آئ۔آر کاٹی گئی جس میں نوازشریف، شہباز شریف، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق کے علاوہ پنجاب پولیس کے دیگر کے نام شامل تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری جو شروع سے اپنے کارکنان کے انصاف کے لیے متحرک نظر آے کبھی سیاسی محاذ پر اے۔پی۔سی، احتجاج، کبھی جلسہ عام و دھرنا کرتے نظر آے تو کبھی قانونی محاذ پر خود اعلیٰ عدالتوں میں بھی جاتے نظر آے۔

جنوری 2018 میں ہمیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے موضوع پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب، عمران خان صاحب، آصف زرداری صاحب، شیخ رشید احمد صاحب سمیت جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق)، پی۔ایس۔پی، ایم۔کیو۔ایم پاکستان، سنی اتحاد کونسل، جمیعت علمائے اسلام (س)، مجلس وحدت مسلمین و دیگر پارٹیز متحد نظر آئیں اور اسمبلی ہال کے سامنے احتجاج کرتی نظر آئیں۔ اس کے بعد سے آج تک خاموشی کیوں؟ اس احتجاج کے بعد ہمیں سیاسی محاذ پر کوئی ایکٹیویٹی نظر نہیں آتی۔

اسی طرح تب سے پاکستان عوامی تحریک معزز عدلیہ میں اپنا مقدمہ لڑرہی ہے۔ جب میری عوامی تحریک کے رہنماوں سے بات ہوئی تو بقول ان کے کیس آج بھی وہیں ہے جہاں 6 سال قبل تھا۔ بہر حال آج 17 جون ان 14 شہدا کی 6 ویں برسی ہے۔ انکے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ریاست کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا ہماری نا انصافی اور ظالم کو چھوٹ دینے پر تو اللہ‎ کی پکڑ نہیں، جو آج ھم معاشی پستی کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کا بھی شکار ہیں۔

وزیراعظم عمران خان صاحب نے 2018 الیکشن سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقاتیں کیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے انصاف کا وعدہ کیا۔ اسی طرح پی۔ٹی۔آئ کی سیکنڈ لائن لیڈر شپ نے بھی انصاف کی فراہمی کے وعدوں پر اپنے سیاسی کزن سے ووٹ لیے مگر حکومت کو 3 سال ہو چکے انصاف فراہم نا کیا جاسکا۔ حتی کہ پولیس والوں کو بھی ترقیاں دے دی گئیں۔ ادھر ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست سے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی۔

یہ الگ بحث ہے کہ علامہ کو اس وقت جب شہدا کو انصاف نہیں ملا تھا اپنی سیاسی پاور بھی ختم کرنی چاہئیے تھی یا نہیں۔ بہر حال انکی انصاف کی جدوجہد پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ دن رات سیاسی و قانونی محاذ پر ڈٹے رہے اور میری اطلاعات کے مطابق اب بھی طاہر القادری وکلا کی بھاری فیسیں ادا کررہے ہیں جبکہ خود کیسز کی مانیٹرنگ بھی کرتے ہیں۔ صرف اس ایک سانحہ کے بعد ھم نے سانحہ بہاولپور بھی دیکھا اور صلاح الدین جیسے دیگر واقعات و سانحات بھی دیکھے۔

اگر ان 14 شہدا کو بروقت انصاف مل جاتا تو آج پولیس کے مزید ایسے واقعات پیش نا آتے۔ ہمیں اس ملک میں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہوگا تاکہ انصاف کا بول بالا ہوسکے۔ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 6 ویں برسی پر میں ریاستی اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ براۓ کرم آپ کسی سیاسی جماعت کو نا دیکھیں۔ ان 14 شہید پاکستانی شہریوں کو انکے لواحقین کو دیکھیں۔ ان 100 سے زیادہ زخمی جنکی بازو، ٹانگ چلی گئی انکو دیکھیں۔ ان مظلوموں کو انصاف دلوایں تاکہ نشان عبرت بن سکے۔ ورنہ میری آنکھیں روز محشر اللہ‎ کی شدید پکڑ دیکھتی ہیں۔ مجھے ریاستی اداروں سے امید  ہے کہ وہ انصاف کو بحال کریں گے اور انشااللہ میرا قلم ہمیشہ مظلوم کی آواز بنتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :