ایک بھی کام کا نہیں ہوتا

جمعرات 10 اکتوبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

اتنی بھی کیا بے حسی اور شقی القلبی کہ انسان، انسانیت کا ہر سبق یوں پسِ پشت ڈال دے کہ کتابِ زیست کے کسی ایک ورق میں بھی رحم، ترس، صبر اور بردباری کا کوئی ایک لفظ بھی باقی نہ رہے۔ ایسی بھی کیاسنگلاخ دلی کہ ضبط، برداشت اور تحمّل کے مترادف اور ہم معانی الفاظ دل کی بنجر زمین پر اگ ہی نہ پائیں۔ رگ و ریشے میں دوڑتے خون میں ایسا بھی کیا جنون کہ دل کی دھڑکنوں پر کوئی نالہ وشیون اثر پذیر ہی نہ ہو پائے۔

میں مانتا ہوں کہ عزتوں کی جانب اٹھنے والے ہاتھ کاٹ دینے کو دل کرتا ہے۔ لاریب غیرتوں کو اجاڑنے کے لیے بڑھنے والے قدم نوچ لینے چاہییں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ مدھم کر دی جانے والی حرمت اور مبہم بنا دی جانے والی غیرت پر مرہم رکھنا اتنا آسان نہیں ہوا کرتا مگر ایسی بھی کیا شقاوت اور سنگ دلی کہ ظلم و سربریت میں برما کے بودھ متوں کو بھی مات دے دی جائے۔

(جاری ہے)

کسی انسان کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا جائے، اس کے جسم کے نازک اعضا کو جلا دیا جائے، اسے پیشاب پلا دیا جائے، اس کے جسم و جاں پر ایسا ظلم ڈھایا جائے کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے اور دیکھنے والوں کی آنکھیں ڈبڈبا جائیں۔ حمیت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ تحقیق و تفتیش اور اصلاحِ احوال و اطوار کا عمل اپنے گھر سے شروع کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ عزت کی علامت بہن، بیٹی اور بیوی ہی ہوا کرتی ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موبائل فون عہدِ حاضر کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے مگر ذرا اپنے گھر کے خلوت کدے میں بھی جھانک لیجیے کہ جو لڑکی بستر میں رات گئے تک موبائل فون پر مصروف ہے اس کے روابط کس کس کے ساتھ ہیں؟ کہ بھیڑیے نما لڑکے عزتوں کو نوچنے کے لیے طرح طرح کے رنگ روپ، نرم گرم رویّے، دعووں اور وعدوں پر مبنی لچھے دار باتیں اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں تک اٹھا لیتے ہیں۔

یہ آوارہ جھونکے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ سراپا مجنوں کے پیکر بن کر ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کا بچنا محال ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر پہلی یا دوسری بار کسی اجنبی اور نامانوس کال پر ہی لڑکی، فون اپنے بھائی یا باپ کو سننے کے لیے دے دے تو بہت بڑے طوفان کو آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ لڑکی کے دل میں گنجایش پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر بالکل ہی حیا کا کاجل آنکھوں سے نکل جاتا ہے۔


آنکھوں میں اگر شرم و حیا کا نہ ہو کاجل
انسان کی رسوائی کا سامان ہیں آنکھیں
اس کے بعد پھر سارا منظر ہی آہوں اور آنسوؤں میں ڈھل جاتا ہے۔ کتنے ہی گھر ویران اور سنسان ہو جاتے ہیں۔ موبائل فون کے غلط استعمال کے باعث کتنے ہی دل فگار ایسے واقعات رونما ہو چکے جنھوں نے کئی خاندانوں کی خوشیوں کو چاٹ کھایا۔ موبائل فون پر معاشقے اور ان کے گھناؤنے انجام کتنے ہی والدین کی آسودگیاں نوچ لے گئے۔

یہ دل سوز کتھائیں محض ایک بستی یا کسی ایک نگری کی نہیں بلکہ ان گنت گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکیں۔ بھونرا مزاج لڑکے بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ شریف زادیوں کو بھی اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہی تو ہے جو خیالوں سے جا نہیں رہا
یہ آدمی جو مرا فون اٹھا نہیں رہا
گوجراں والا میں تو سنبل نامی لڑکی عینی بن کر اپنے حقیقی بھائی سے فون پر دوستی کر کے رقم اینٹھتی رہی۔

وہ اپنے بھائی کو شادی کا جھانسا تک دیتی رہی۔ جب شادی کا اصرار بڑھا تو اسے کہا گیا کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہونا تھی اس نے کسی اور لڑکے سے شادی کر لی۔ یہ سنتے ہی اشرف نامی لڑکے نے خود کشی کر لی۔ موبائل فون پر دوستی بڑی بڑی وحشتوں اور المیوں کو جنم دے چکی۔ موبائل فون کا منفی استعمال کتنے ہی خاندانوں پر تیرگیاں مسلّط کر چکا۔ جب لڑکے لڑکی کے ناجائز تعلقات کا بھانڈا پھوٹتا ہے تو پھر وہ حمیت جو پیہم خراٹے لے کر گہری نیند سوئی رہتی وہ یک دم ایسی بیدار ہوتی ہے کہ قتل سے کم سزا دینے پر راضی ہی نہیں ہوتی۔

پھر لڑکے کو بلا کر ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں کہ جنھیں سن کر کلیجا پھٹنے لگتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے جس نوجوان لڑکے کی جلی کٹی لاش دیکھی تھی اسے بھی تعلقات کے شبہے میں بلا کر قتل کیا گیا تھا۔ اس کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح عزت بحال ہو جاتی ہے؟ کیا اس طرح تشدّد کر کے کسی کو قتل کر دینے سے راہ بھٹک جانے والی ناموس، مستقیم راہوں پر پلٹ آتی ہے؟
قانون کو ہاتھوں میں لے کر کسی کو قتل کر ڈالنے سے دوخاندانوں کا امن و سکون تو واپس نہیں لایا جا سکتا۔

اس جلے کٹے نوجوان کی لاش دیکھ کر غم و اندوہ اور قلق میرے حلق تک آ گیا تھا۔ طرح طرح کے جھکّڑ میرے دل و دماغ میں چلنے لگے تھے۔ ایک طرف تو کسی کی عزت نوچنے والے نوجوان کا یہ بھیانک انجام میرے احساسات کو جھلسا رہا تھا تو دوسری سمت ایک ماں کے لختِ جگر کے نازک اعضا تک کو جلا کر قتل کر دینے کے دکھ سے میرا کلیجا سلگ رہا تھا۔ مقتول کی ماں نے مجھے بتایا تھا کہ اغوا کار اس کے بیٹے کو تین دن تک تشدّد کا نشانہ بناتے رہے اور اسے پیشاب تک پلاتے رہے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا اس سے قبل بھی اس سے مماثل دل دوز کہانی لیے اور ایسے ہی آنسوؤں میں لپٹا ایک اور واقعہ بھی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کو کیا ہو چلا کہ اتنے گھناؤنے انجام کو دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔
ہکلا رہا تھا، دیکھ کر ظلم و ستم کو میں
چیخا ہوں اتنے زور سے کہ لکنت تمام شد
ایک ماں اپنے بیٹے کی اس طرح جلی کٹی لاش دیکھ کر کس طرح خود کو سہار پائی ہو گی؟ ایک باپ کا جگر، درد و الم کے باعث کس قدر چھلنی ہو گیا ہو گا؟ ماں باپ اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے بھونچال کو کس طرح ضبط کر پائے ہوں گے۔

بے دردی کے ساتھ قتل کر دیے جانے والے بیٹے کی یادوں کا غول ہر آن اور ہر لمحہ ان کی زندگیوں کو کرب و اذیت کے حصار میں لیے رکھے گا۔ جب جوان بیٹوں کے سفاکانہ قتل کا روگ لگ جائے تو پھر آنکھوں کی بے چینی اور آنسوؤں بے ترتیبی دیکھی نہیں جاتی۔ پھر سسکیوں کی بے تابی پر دلوں میں ہوک اٹھنے لگتی ہے۔ پھر زندگی میں کبھی تبسّم لبوں پر آ بھی جائے تو وہ اداسیوں ہی میں لتھڑا ہوتا ہے۔

پھر مسکراہٹوں میں بھی گہرے درد پنہاں دکھائی دیتے ہیں۔
زخم اپنانا کتنا مشکل ہے
ٹیس دفنانا کتنا مشکل ہے
چیختے اور چبھتے سوالات یہ ہیں کہ ایسے سانحے کیوں رونما ہوتے ہیں؟ غلطی کس کس کی اور کتنی ہے؟ اس میں بنیادی قصور کس کا ہے؟ کہیں ایسے واقعات اسلام سے دوری کا شاخسانہ تو نہیں؟ میں پہلے بھی ایسے سانحات پر قلم زنی کر چکا ہوں مگر یہ کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔

نوجوانوں کی طرف اصلاحِ کردار کا کوئی جھونکا آ ہی نہیں رہا۔ اکثروبیشتر جو فون آتے ہیں وہ ہوتے بھی محض سلام دعا کے لیے ہی ہیں۔ مگر میں فون کی افادیت کا ہر گز منکر نہیں۔مقصد تو فون کے غلط استعمال پر والدین کی توجہ مرکوز کرانا ہے۔شاید اس درد بھری پکار سے کوئی ایک لڑکی، کوئی ایک لڑکا یا کوئی ایک ماں باپ اپنے اپنے کردار میں چھپی غلطی کو تلاش لیں، شاید موجودہ لڑکے اور لڑکیوں میں خفیف سی فہمایش ہی جلوہ فگن ہونے لگے۔ شاید قانون کو ہاتھ میں لے کر وحشیانہ تشدّد کرنے والے لوگوں میں بھی انسانیت کا کوئی احساس جاگزیں ہو جائے۔
ایک بھی کام کا نہیں ہوتا
فون دن میں پچاس آتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :