چار گھوڑئے ایک تانگہ

جمعہ 27 ستمبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

منزل پر پہنچنے کہ بہت سے طریقے ہیں۔ ہر طریقہ دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔ کوئی آسان، کوئی مشکل، کوئی لمبا اور کوئی چھوٹا ہوتا۔ منزل کا تعین تقریبا پہلے ہی کر لیا جاتا ہے۔ فرض کرلیں چار دوست ہیں اور اُن کے پاس ایک تانگہ ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ چاروں دوست سب سے پہلے اپنی اپنی منزل کا تعین کرلیں۔ اب ایک بات تو یہ ہوسکتی ہے کہ چاروں کی منزل ایک ہی ہو۔

ہاں ایسا ضرور ہوسکتا ہے سب اپنے اپنے طریقے یا راستے سے اس منزل کی طرف بڑھنا چاہتے ہوں۔ بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ سب آپ میں ایک ہی طریقے پر متفق ہو جائیں اور اگر ایک طریقے پر متفق نہیں بھی ہوتے تو چارو ں گھوڑے ایک طرف لگا دیں اس سے سفر تیز ہوگا اور منزل آسان ہوجائے۔ لیکن اگر یہی دوست ایک تانگے پر چاروں سمتوں میں اپنے اپنے گھوڑے لگا دیں گے تو کوئی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا۔

(جاری ہے)

منز ل تو درکنار اس سے ان کے گھوڑے بھی جواب دیں جائیں گے۔ یعنی کسی منزل تک پہنچنے کے لیے اتحاد بہت ضروری ہے۔ اس سے تمام منازل آسان ہوجاتی ہیں۔
14اگست 1947کو قائد آعظم محمد علی جناح اور اُن کے چند مخلص ساتھیوں نے عوام کے ساتھ مل کر انگریزوں اور ہندؤں کے تسلط سے اس قوم کو آزادی دلوائی اور ایک قطہ ارض جس کا نام بڑی شان سے پاکستان رکھا گیا حاصل کیا۔

قائد ایک ایماندار اور محنتی انسان تھے لیکن ان کی زندگی نے اتنی مہلت نا دی کہ وہ اس ملک کو اپنی سوچ کے مطابق آگے بڑھا سکیں۔ لہذا ان کی اور ان کے ساتھیوں کی وفات کے بعد اس ملک پر گدھ سوار ہوگئے اور کو نوچنا گھسوٹنا شروع کردیا۔ کبھی سول مارشل لاء اور کبھی فوجی مارشل لاء نے ملک کو ترقی کی بجائے پستیوں کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ اس تانگے کو سب نے اپنے اپنے گھوڑئے مختلف سمت میں لگا کر زور لگانا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دُنیا کو ہمیں یقین دلانا پڑرہا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں اور نا ہی ہمارا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔


سیاست دان، فوجی جرنیل،بیوروکریٹس ہوں یا ججز سب نے اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی۔ کہنے کو سب جمہوریت کا راگ ہی الاپتے تھے مگر اس کی آڑ میں اپنے گھناؤنے عزام پورنے کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ عوام کی حالت آج بھی ایسی ہے جیسی پہلے تھی۔ اس قوم کی تربیت کا زمہ کبھی کسی سیاستدان نے نہیں لیا۔ اسی لیے تو دُنیاہمیں اچھا نہیں سمجھتی۔

مشرق وسطہ کے ممالک ہوں یا یورپ کے وہ سب کہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ ٹھیک نہیں۔ یا تو یہ دو نمبری کرنے میں ماسٹر ہیں یا پھر ہڈحرامی میں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے وہ پاکستانی جو اپنے بیوی بچوں کو باہر لے جاتے یا پھر باہر ہی شادی کرلیتے۔ اب جیسے ہی ان کے بچے بڑئے ہوتے ان کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ پھر ان کی کوشش ہوتی کہ کسی نا کسی طرح اپنے بچوں کو اپنے ملک واپس لے جائیں۔

جس سے ان ممالک میں ہمارا امیج انتہائی منفی جاتا ہے۔ وہ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم نے ان کو رہنے کو جگہ دی، نوکری ہسپتال تعلیم غرض تمام سہولتیں دیں لیکن یہ پھر بھی ہمارئے کلچر کو برا کہتے ہوئے بچوں کو لے کر بھاگ رہے ہیں۔ اگر ہم لوگ اتنے ہی برئے ہیں تو پھر یہ ہمارے ہاں آتے ہی کیوں ہے۔
اسی طرح جتنا عرصہ فوجی حکمرانوں نے اس ملک پر حکمرانی کی ان کا اپنا نقطہ نظر تھا۔

ان کو جو اچھا لگتا وہ وہی کرتے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ دیکھانے کو کچھ مطلب پرست قسم کے سیاستدان اور صحافی اپنے ساتھ ملا لیتے اور کہتے کہ یہ اصل جمہوریت ہے۔ ہمارے ہاں تو فوج ریٹائمنٹ کے بعد بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ یعنی اس کو آسانی سے کہیں بھی نوکری مل جاتی۔ جبکہ سویلین بیچارے ایک دفعہ نوکری سے گئے پھر قبر ہی ان کا آسرا بنتی۔ اور تو اور آپ آرمی کے سکو ل ہی دیکھ لیں بڑئے نجی سکولوں سے ہزاروں گنا اچھے ہیں اور ان کے اپنے بچے وہاں فری تعلیم حاصل کرتے اور سویلین کے بچوں سے یہ نو نو ہزار فیس وصول کرتے ہیں۔

عام سرکاری سکولوں کی یہ حالت ہوتی کہ وہاں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ واش روم کے دروازے تک نہیں اور بلڈنگ قدیم زمانے کے مکانوں کا منظر پیش کرتی نظر آتیں ہیں۔ کیا یہ نا انصافی نہیں جو امیر لوگ ہیں وہ تو اپنے بچوں کو بڑئے بڑئے نجی سکولوں میں داخل کروا لیتے مگر غریب لوگ کہاں جائیں کیا ان کے لیے آج بھی ٹاٹ سکول ہی بچتے ہیں۔
اسی طرح سیاستدان ہیں وہ بھی اپنے اپنے گھوڑئے دوڑاتے رہیں ہیں۔

میاں محمد نواز شریف، جناب آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر مرحومہ ، جناب شہباز شریف صاحب، مشرف صاف اور بھی ان جیسے بہت سے چھوٹے موٹے سیاستدان ہیں جنہوں نے کرپشن کا بازار گرم رکھا ان میں سے کچھ تو آج جیلوں میں ہیں مگر اس کا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ وہ دھڑلے سے خود کو بے گناہ کہتے بلکہ اُلٹا عدالتوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ جب بھی کسی بھی سیاستدان کو کرپشن کے کیس میں پکڑا جاتا ہے یا تو وہ باہر نکل آتا یا پھر جمہوریت کا رونا شروع کردیتا ہے۔


بیوروکریٹس کو دیکھ لیں ان کے اپنے گھوڑئے ہیں۔ یہ شاہانہ زندگی گزارتے سیاستدانوں، جرنیلوں کی طرح ان کے بچے بھی باہر کے ممالک میں عیاشی کرتے ہیں۔ ملک کی دولت کا بڑا حصہ یہ لوگ باہر لے جاتے ہیں۔ تازہ مثال کراچی کے پارکس کے ڈی جی کی دیکھ لیں خدا کی پناہ اتنی دولت اس کے گھر سے نکلی کہ ملک کی آدھی آبادی کی دولت مل کر بھی اتنی نا بنے۔

لیکن کیا ہوگا وہ کچھ عرصہ جیل میں راہ کر زمانت پر رہا ہوجائے گا۔ اور بوجھ پھر عوام کے کندھوں پر آگرے گا۔
جب تک عوام نے گھوڑوں والوں کو اپنے ہاتھوں سے سزا نہیں دیتے یہ لوگ سدھرنے والے نہیں۔ ہم اتنے کمزور ہیں کہ بھارت ہم پر ظلم کرتا اور ہم عالمی قیادت سے مدد مانگتے ہیں۔ یعنی ہم میں اتنی سکت بھی نہیں کہ ایک دشمن کو سوائے بیانوں کوئی اور جواب دے سکیں۔ سب کو پتا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو زیادہ نقصان کس کا ہوگا۔ کیونکہ کرپٹ اور چوروں نے اس ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ لہذا ہمیں ایسے لوگ چننے ہوں گے جن کے گھوڑوں کی سمت ایک ہو اور ان کا سفر عوام کی بھلائی ہو نا کہ اپنے بال بچوں کی ترقی کی طرف گھوڑئے دوڑائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :