
دو کہانیاں، میاں صاحب کی جیل اور غریب کی جیل
ہفتہ 19 اکتوبر 2019

حُسین جان
آج آپ کو دو مزیدار کہانیاں سناتا ہوں۔ دونوں کے مرکزی کردار ہمارے ملک کے ہی ہیں۔ یہ کہانیاں زیادہ پرانی نہیں بلکہ حال ہی میں وقو ع پذیر ہوئی ہیں۔ چلیں شروع کرتے ہیں اپنی پہلی کہانی اس کے مرکزی کردار کا نام تو کچھ اور ہے لیکن فرض کرلیتے ہیں کہ اس کا نام جمیل ہے۔ جمیل ڈسٹرکٹ فیصل آباد کا رہنے والا ہے۔ کوئی پندرہ بیس سال پہلے ان کے خاندان کا اپنے علاقے کے ہی کسی دوسرئے خاندان سے معمولی سا جھڑا ہوگیا۔ محلے واالوں نے آپس میں مل کر فیصلہ کیا کہ بجائے معاملات کو تھانے کچہری تک لے کر جایا جائے اسے گاؤں میں ہی حل کرلیتے ہیں۔ لہذا گاؤں کے کچھ بڑوں نے پنجائت بلائی اور دونوں فریقین میں صلح صفائی کروا دی۔ مگر مخالف پارٹی نے اپنے دل سے رنجش نہیں نکالی۔
ایک دن موقع دیکھ کر انہوں نے جمیل کے کزن کوجو کہ پولیس میں کانسٹیبل بھی تھا کو قتل کردیا۔
جمیل کی عمر اس وقت اٹھارہ سال بھی نہیں تھی۔ اب سیدھی سی بات ہے اس دشمنی نے کم نہیں ہونا تھا۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جمیل نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر مخالف گروپ کے بھی ایک بندے کو قتل کردیا۔ لیکن قسمت اچھی کہ موقع واردات سے وہ نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب یہ دشمنی مزید پختہ ہوچکی تھی۔ صلح صفائی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ گاؤں کے لوگوں نے بھی اب کہاکہ جب فریقین نے آپس میں ہی فیصلہ کرنا ہے تو مزید اس معاملے سے دور رہا جائے کیونکہ اب بات قتل وغارت پر آگئی تھی۔
(جاری ہے)
خیر کچھ دن بعد پولیس نے روایتی طریقہ اپناتے ہوئے جمیل کے گھر والوں کو تھانے میں بند کردیا۔ یہی صورتحال مخالف گروپ کے ساتھ برتی گئی۔ پھر خاندان کے بڑوں نے جمیل کو کہا کہ وہ اپنی گرفتاری دے دے۔ تاکہ دوسرے لوگ جو کہ بیگناہ ہیں ان کو تھانے سے نکلوایا جاسکے۔ خیر جمیل نے اپنی گرفتاری خود ہی دے دی۔ پھر وہی کام جو ہوتا ہے یعنی کیس عدالت میں لگا اور ایک دو سالوں میں دونوں فریقین کے ملزمان کو بھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جمیل اس وقت بالغ نہیں ہوا تھا پھر بھی اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جمیل کی قسمت اچھی تھی کہ چند سال جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوگئی۔ پھر آپ یوں کہ لیں کہ دونوں فریقین نے خاموش صلح کر لی۔ کیونکہ ان کو اس بات کا ادراک ہوچکا تھا کہ اگر یہ معاملا مزید آگے چلا تو خاندان کے خاندان برباد ہوجائیں گے۔
جمیل جب جیل سے رہا ہوکر نکلا تو اس نے لاہور کا رُخ کیا اور یہاں محنت مزدوری کرنے لگا۔ وہ ہمارے ایک ٹھیکدار دوست کے ہاں کام کرتا تھا جس کی وجہ سے ہماری بھی اس سے سلام دعا ہوگئی۔ پھر اس نے ایک دن ہمیں اپنی یہ ساری داستان سنائی۔ جمیل کا خاندان کوئی بہت زیادہ امیر نہیں تھا۔ چھوٹے موٹے زمیندار لوگ تھے۔ جمیل نے ہمیں اپنی جیل کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ ہمیں جس کوٹھری میں رکھا جاتا تھا۔ وہاں کا باتھ روم بھی اسی کمرے میں اوپن ہی تھا۔ سخت گرمیوں میں بھی پنکھا نہیں چلایا جاتا تھا۔ ہم سے روزانہ مشقت لی جاتی۔ کھانے کو پانی کی صورت میں دال اور پلاسٹک سے بھی زیادہ سخت روٹیاں دی جاتی تھیں۔ ہمیں اپنی کوٹھری سے نکلنے کی بالکل بھی اجازت نہیں تھی۔ ملاقاتیوں کا بھی ایک دن مقرر تھا۔ اور اگر کبھی کبھار گھر سے کوئی چیز آجاتی تو وہ ہم تک نہیں پہنچتی تھی۔ پولیس اہلکار اسے راستے میں ہی ہڑپ کرجاتے تھے۔ کئی کئی دن وہ لوگ سورج دیکھنے کو ترس جاتے تھے۔ اس کوٹھری میں زیادہ سے زیادہ دو بندوں کی جگہ تھی مگر جیل والوں نے اس میں سات بند ے رکھے ہوئے تھے۔ بقول جمیل کہ ہمیں موت اس کوٹھری سے زیادہ آسان لگتی تھی۔ اس کوٹھری میں ہم روزانہ مرتے تھے۔ پینے کو صاف پانی تک میسر نہیں تھا۔ کھانا پینا اور ہگنا تک ایک ہی جگہ پر ہوتا تھا۔ کھانے کا میعار ایسا ہوتا کہ گلی کا خارش زدہ کتا بھی ناکھائے مگر ہمیں زندگی سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے زہر مار کرنا ہی پڑتا تھا۔ پھر قسمت نے یاوری کی اور جمیل کو رہائی نصیب ہوئی۔ جمیل آج بھی محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پا ل رہا ہے کیونکہ وہ کوئی اجرتی قاتل نہیں تھا۔ غصے میں قتل ہوگیا جس کی سزا اس نے پائی۔
اب آتے ہیں دوسری کہانی کی طرف اس کہانی کے مرکزی کردار کا نام ہے میاں محمد نواز شریف ہے موصوف کو پاکستان کا تین دفعہ وزیرآعظم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ سنا ہے کہ چھوٹے موٹے تاجر تھے کسی زمانے میں ۔ مگر آجکل پاکستان کے امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ بات صر ف یہاں تک ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ بہت دور تلک جاتی ہے۔ یعنی جناب کے بھائی ، بیٹے بھتیجے، سالے، بہنوئی ، بیٹیاں، داماد ،پھر بھایئوں کے داماد آسان الفاظ میں یوں کہ لیں کے پورا خاندان ہی اشرافیہ میں شمار ہوتا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں ان سے بھی غلطی ہوئی قتل تو شائد کوئی نہیں کیا مگرسنا ہے کہ ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا۔ ان کی کچھ جائیداد بیرون ملک میں بھی ہے جہاں ان کی آل اولاد خاص کر کے نرینہ اولاد مزے سے راہ رہی ہے۔ پھر ان پر کرپشن اور آفشور کمپنیوں کا کیس بنا۔ عدالت کے معزز جج نے ان کو سزا سنا دی۔ جمیل کے کیس میں نا تو میڈیا کا کوئی مفاد تھا نا ہی کسی سیاسی جماعت کا لہذا وہ گمنام ہی رہا۔ مگر میاں صاحب چونکہ ایک امیر آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر بھی ہیں لہذا خوب شور ہوا کہ عدالت نے غلط فیصلہ دیا ہے۔ جمیل جیسے لوگوں کے لاکھوں فیصلے روز ہوتے تب یہی لوگ کہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں مگر جیسے ہی ان کے خلاف فیصلے آئیں تو عدالتوں کو متنازع بنا دیتے ہیں۔
خیر میاں صاحب اب جیل میں ہیں۔ جمیل جیل میں کس حال میں تھا آپ نے اوپر پڑھ لیا ہے۔ اب میاں صاحب جیل میں کیسے ہیں وہ میڈیا گروپ کے رپورٹر کی زبانی ہی سنیں۔ وہ کہتے ہیں نواز شریف نیب میں ڈے کیئر سنٹر میں قید ہیں۔ ڈے کیئر سنٹر کے باہر بڑا سالان ہے جس میں سابق وزیر آعظم کے لیے میز، کرسی اور چھتری کا انتظام موجود ہے۔ میاں صاحب صبح شام قید خانے سے باہر آتے ہیں اور لان میں گھنٹہ صبح اور گھنٹہ شام کو واک کرتے ہیں۔ لان میں بیٹھ کر کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ ان کے کمرے کے باہر دل کے ہسپتال کی ایک گاڑی چوبیس گھنٹے کھڑی رہتی ہے۔ اس گاڑی میں تین ڈاکٹر ہمہ وقت موجود رہتے ہیں تاکہ کسی بھی امیرجنسی کی صورت میں ان کا چیک اپ کیا جاسکے۔ نیب کا ڈاکٹر روزانہ کی بنیاد پر ان کا بلڈ پریشر اور شوگر لیول چیک کرتا ہے۔ ڈے کیئر سنٹر کے باہر 4پولیس جوان ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں اس کی چھت پر بھی سکیورٹی کا سخت انتظام موجود ہے۔ سرچ لائٹس لگا کر رات بھر فول پروف سکیورٹی کا بندوبست ہے۔ کھانا رروزانہ گھر سے آتا ہے۔ نواز شریف صاحب ناشتے میں ڈرائی فروٹ اور پھل کھاتے ہیں ۔ دوپہر کے کھانے کا مینو روز مختلف ہوتا ہے۔
تو یہ ہے ہمارے ملک کا نظام جس میں ایک طرف تو غریب کو جیل میں ازیتیں دی جاتی ہیں اور دوسری طرف امراء کے ساتھ الگ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کیا یہ عمران خان کا پاکستان ہے۔ کیا یہ انصاف ہے۔ یا غریب کو جینے کا حق نہیں۔ جس کے پاس مال ہے وہ جیل میں بھی مزے میں ہے۔ اور جس کے پاس کچھ نہیں وہ آزادہو کر بھی قیدیوں جیسی زندگی گزارتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.