پی ڈی ایم اور ملکی ادارے

جمعہ 22 جنوری 2021

Hussain Jan

حُسین جان

کیا اداروں کی کوئی ساکھ نہیں. کیا ہر کوئی جب دل کرئے اداروں پر چلانا شروع کردے. ادارے جس کے خلاف ایکشن لیں وہیں ان اداروں کو برا بھلا کہیں اور ان کے فیصلوں کی تذلیل کریں. یہ لوگ اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.
سیاست سے قطع نظر سوچنے کی بات ہے کہ یوں اپنے ہی ملکی اداروں پر الزامات لگا کر ان کان یوں مذاق اڑانا کوئی اچھی بات ہے.

پی ڈی ایم کی لیڈر شیپ سیاسی ٹریک سے ہٹ رہی ہے. اپوزیشن جماعتوں کا کام حکومت پر کڑی نظر رکھنا اور اس کو مجبور کرتے رہنا ہوتا ہے کہ وہ عوامی بھلائی کے کام کرتے رہیں. حکومتی منصوبوں اور ملک کو درپیش مسائل پر کھل کر بات کرنا اپوزیشن کا کام ہوتا ہے.

(جاری ہے)

لیکن ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کچھ خاص بہتر نہیں رہی. اس وقت اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں پر کرپشن کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر  مقدمات بھی بنے ہوئے ہیں.
مزے کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے اب تک کسی بھی سیاستدان پر کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا گیا.  جتنے بھی سیاسی مقدمات چل رہے ہیں وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے دوران ہی بنائے گئے ہیں.
پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے وابستہ بہت سے سیاستدانوں پر مقدمات بنوائے اسی طرح مسلم لیگ ن نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں پر مقدمات دائر کر رکھے تھے.

اور تو اور پاناما کا شور بھی ن لیگ کی حکومت میں ہی اٹھا تھا. اور اداروں نے نواز شریف کے خلاف تب تحقیقات کیں جب وہ خود وزیر آعظم تھے. سپریم کورٹ نے ان کو 7 سال کی سزا سنائی اور نااہل قرار دیا. اس کیس کا تعلق بھی موجودہ حکومت سے نہیں بنتا. یہاں سے ایک نئی سیاسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے.
اپوزیشن نے جب دیکھا کہ حکومت کسی طرح بھی ان کے قابو میں نہیں آرہی تو انہوں نے اپنی توپوں کا رخ ملکی اداروں اور خاص کر پاکستان کی افواج کی طرف کردیا.

سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آرمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ عوام کی اکثریت افواج کے ساتھ کھڑی ہے. لیکن یہ لوگ الٹے سیدھے بیانات دے کر عالمی سطح پر فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ییں.
مولانا فضل الرحمن صاحب اور میاں محمد نواز شریف صاحب کا کردار اس سارے کھیل میں کافی مشکوک ہے. میاں محمد نواز شریف صاحب نے تو برملا فوج کے سربرہ کا نام لے کر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا.

جو کہ سراسر غلظ اقدام ہے. لوگ پوچھتے ہیں جب آپ تین دفعہ وزیر آعظم بنے کیا تب فوج ٹھیک تھی. اور کیا اب فوج ٹھیک نہیں یا اب وہ آپ کو بھی ایک عام پاکستانی کی حثیت سے دیکھ رہی ہے. مولانا صاحب نے زندگی کی کئی دہائیاں اسی اسمبلی میں گزار دیں. مشرف صاحب کی آشیرباد سے صوبہ پختون خواہ میں حکومت بھی کرتے رہے. کئی سالوں تک کشمیر کمیٹی کے بلا شرکت چئیرمین رہے.

کیا تب آپ کو فوج پر اعتراص نہیں تھا کیا.
اچانک سیزر اکھاڑا یاد آگیا جب رومن ایک ایسے اکھاڑے میں قیدیوں اور جوانوں کو اتارتے تھے جہاں انسانوں، انسانوں اور جانوروں سے اپنی بقا کی جنگ لڑتے تھے. زندہ بچ جانے والے کی ہی جیت ہوتی تھی. ہار کا کوئی تصور نہیں تھا. جیت یا موت. کیا سیاسی جماعتوں نے بھی ییی وطیرہ اپنا لیا ہے کہ کارکنان کو اکھاڑے میں اتاریں اور ملکی اداروں سے ہی لڑوا دیں.

اور خود ملک کے امیر ترین افراد کہلوایں. اور داؤ پر کیا لگا یے ریاست جی ہاں ریاست پاکستان اور اس کے معزز ادارے.
اس بات میں کوئی شک نہیں عدلیہ اور پولیس میں بہت سی اصطلاحات کی ضرورت ہے. لیکن یہ کیا بات ہوئی آپ فوج پر ہی چڑھائی شروع کردو. نیب کی ساکھ کو نقصان پہنچاو اور اس کے فیصلے ماننے سے انکار کردو. جناب آپ بھول رہے ہیں یہ ادارہ آپ کا ہی بنایا ہوا ہے.

مشرف کے بعد آپ نے اسے کیوں نا ختم کردیا. زرداری صاحب بڑے دھڑلے سے کہتے کہ ہم نے مشرف کو گھر بھیج دیا تو سر اس ادارے کو بھی گھر بھیج دیتے.
نواز شریف اسی عدلیہ سے اجازت لے کر مک سے باہر گئے انہوں نے واضح کہا تھا کہ علاج کے لیے صرف چند دن جاؤں گا. اور اب باہر بیٹھ کر سازش کرریے ہیں. اس سازش میں ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور بلاول صاحب بھی شامل ہیں.

آپ کیا کرنا چاہتے ہیں کیا اس ملک کو کمزور کرنا آپ کا مقصد ہے. جب آپ کی حکومت ہو تو ملک میں حقیقی جمہوریت ہوتی ہے اور آپ کی حکومت نا ہو تو فوج پر الزامات لگانا شروع کردیتے ہو. سر بس کردیں سیاست ضرور کریں لڑیں جمہوریت کی لڑائی. حکومت کو سخت وقت دیں. تنقید کریں. فیصلو پر اعتراض کریں. پر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ افواج پاکستان کو بدنام کرنا شروع کردیں. ایک بات یاد رکھیں اگر فوج کمزور ہوگی تو ملک کمزور ہوگا. ہمارے جو دشمن تاک میں بیٹھے ہیں پلک چھپکنے میں آپ کو نگل لیں گے. آپ کا کیا ہے نکل لیں گے کسی بھی دوسرے ملک. پاکستان تو آپ نے صرف حکومت  کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے. پر عوام کا کیا انہوں نے تو یہیں جینا اور یہیں مرنا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :