دھڑے بازی اور پاکستانی سیاست

جمعرات 18 فروری 2021

Hussain Jan

حُسین جان

سیاست میں خاص کر پاکستانی سیاست میں دھڑے بازی کو بڑی اہمیت حاصل ہے. خاندانی، زات پات اور برادی کی سیاست بھی دھڑے بازی کی ہی ایک قسم ہے. ایک سیاست وہ ہوتی ہےجو سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے. اور دوسری سیاست دھڑے کی سیاست ہوتی ہے. یعنی آپ رہتے تو ایک ہی سیاسی جماعت میں ہیں مگر مختلف گروپس کی شکل میں کام کرتے ہیں. سب کی اپنی پسند نا پسند ہوتی.


اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے اند ایک اور ریاست. ضروری نہیں کہ دھڑا بندی صرف کارکنان تک محدود ہو بلکہ یہ سیاسی جماعت کے لیڈر سے لے کر کارکن تک چکر لگاتی ہے.
موجودہ دور میں جمہوریت کو بہترین طرز حکومت کہا جاتا ہے.

(جاری ہے)

اور جمہوریت کی آسان ترین تعریف یہ ہے کہ  ایسی حکومت  آئے جو لوگوں کے لیے کام کرے، لوگوں کے زریعے ہی بنی ہو اور لوگ ہی اس کی اساس ہوں.

اقبال نے کہا تھا جمہوریت اک ایسی طرز سیاست ہے جس میں لوگوں کو گنا کرتے ہے تولہ نہیں کرتے.
پاکستانی کلچر پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں تو گلی محلے تک دھڑے بازی چلتی ہے. اگر کبھی کھیل کے میدان میں کرکٹ کا میچ کھیلنے کے لیے جائیں تو ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا پسندیدہ لڑکا اس کی ٹیم میں ہو. اسی طرح جب تھڑا سیاست عام تھی تب بھی دھڑا بندی عروج پر تھی.

سب کے اپنی اپنی پسند کے بابے ہوتے تھے. خیر سیاسی جماعت بھلے الگ الگ ہو پر بابا اپنا ہی بہتر ہے.
کہتے ہیں ایک قوم بننے کے لیے ذہنی ہم آہینگی کے ساتھ ساتھ صبر و برداشت کا مادہ بھی انسان میں موجود ہونا چاہیے. حسن نثار جو کہ پاکستان کے مشہور اخبار نویس، اینکر اور کالم نگار ہیں اکثر اپنے کالموں میں پاکستانیوں کو لوگوں ہجوم یا ریوڑ لکھتے ہیں.

شروع شروع میں ہمیں بھی دوسروں کی طرح غصہ آتا تھا. لیکن اب احساس ہوچکا ہے کہ وہ سہی لکھتے ہیں. یہ قوم کبھی بھی کسی بھی مسئلے پر متفق نہیں ہوئی.
پاکستان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ہیں. اگر ان سیاسی جماعتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں بھی دھڑے بندی عروج پر ہے.

یہ دھڑے بندی صوبائی سے لے کے کر قومی سطح تک پھیلی ہوئی ہے.
پیپلز پارٹی کی بات کریں تو احتزاز احسن صاحب کا الگر دھڑا ہے، رضا ربانی الگ دھڑے کو لے کر چل رہے. کچھ حضرات آج بھی بے نظیر مرحومہ کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں تو کچھ زرداری صاحب کو قبلہ کا درجہ دیے ہوئے ہیں.
اسی طرح مسلم لیگ ن میں نواز شریف اور شہباز شریف کا الگ دھڑا ہے تو دوسری طرف مریم نواز اور حمزہ شہباز الگ الگ کارکنان رکھتے ہیں.


پی ٹی آئی میں شاہ محمود قریشی اپنے الگ فالورز رکھتے ہیں تو جہانگیرترین کا الگ دھڑا ہے. اسی طرح جے یو آئی اور دیگر مقامی سیاسی جناعتیں بھی اسی کشمکش کا شکار ہیں. موروثیت بھی ہمارے ہاں سیاست میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے.
جمہوریت تو خیر جیسے تیسے یہاں چل ہی رہی ہے اس کے ساتھ افواج پاکستان بھی سیاست میں وقتا فوقتا دخل اندازی کرتی رہتی ہے.

اور پھر جنریلز میں بھی رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے. سیاسی میدان میں جب تک آپ کا فوکس عوامی. مسائل پر نہیں ہوگا تب تک آپ بہتر پرفام نہیں کر پائیں گے.
اگر سیاست کی کتابی تعریف دیکھیں تو وہاں ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاست کا محور عوام ہے. مگر افسوس پاکستان میں عوام سے زیادہ زاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے. اور پھر اس کا نقصان عوام کو مہنگائی، جہالت اور غربت کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :