شہر لاوارث کراچی

جمعرات 1 جولائی 2021

Javed Malik

جاوید ملک

حاصل ہے فضیلت اسے اس دور میں جو شخص
کرگس کا قصیدہ لکھے شاہیں کے پر سے  
انعام کی تحویل میں ہے ان کا تصرف  
سوکھے ہوئے پتے جو ٹپکتے ہیں شجر سے
حضرت انعام ربانی مرحوم نے یہ خوبصورت قطعہ 1984 میں لکھ کر اپنی ارض پاک کے تمام ارباب اختیار کی مکمل کارکردگی صفحہ قرطاس پر چار لائنوں میں محفوظ کر دی۔

اب جب چاہیں،جس دور کی چاہیں ملاحظہ فرمائیں۔ کراچی کسی دور میں نہایت خوبصورت شہر تھا۔سید ہاشم رضا مرحوم کمشنر کراچی ہوا کرتے تھے۔ کراچی کی سڑکیں رات کو دھلا کرتی تھیں۔ شہر کے ہر چوک میں واچ ٹاورز نصب تھے۔ جو اپنی پوری آب و تاب سے وقت کا درست تعین کرتے تھے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین،مربوط اور سستہ تریں نظام  موجود تھا-جس کو چلانے کےلئے ٹرانسپورٹرز کے ساتھ شہر کی سفید وردی میں ملبوس ٹریفک پولیس ہمہ وقت چوکس موجود ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی نا اہلیت کی بنا پر پہلے ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ کیا اور پھر ٹریفک پولیس کو بے اثر و بے وقعت بنا دیا گیا اور بتیس ملین لوگوں کو رکشاؤں کے پیچھے لگا دیا گیا۔ایک زمانہ تھا محمد علی چاولہ اینڈ کمپنی کی ٹرام سروس شہر کے اندر چلا کرتی تھی۔لوگ بسوں کے درمیان ریل کے بھی مزے لیا کرتے تھے۔کیا خوب سواری تھی۔

مگر نالائیقوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے اپنی کارکردگی کی بنا پر پہچانے جاتے ہیں۔ ناعاقبت اندیشوں نے نہ صرف ٹرام سروس بند کر دی بلکہ اس کا نام ونشان مٹا دیا۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں اس بہت اچھی سروس کو بند کرنے والے کوئی اور نہیں تھے سندھ کے موجودہ چیف منسٹر کے والد محترم عبدللہ شاہ مرحوم کا دور حکمرانی تھا۔پچاس لاکھ کا شہر ایک کروڑ کا ہوا پھر دو کروڑ،ڈھائی کروڑ اور اب دنیا کے نقشے پر موجود پچاس سے زائد آزاد ملکوں سے بڑا شہر کسی جنگ زدہ علاقے کی تصویر لگ رہا ہے۔

اللہ کے فضل سے شہر پر روٹی کپڑا اور مکان والوں کی حکومت ہے۔ جن کا مطمح نظر صرف یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں انہوں نے صرف اپنے لیے کہیں تھیں، پبلک کو اس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔شہر کے رہنے والوں کو اتنا بےبس و بے حس بنا دیا گیا ہے نہ کوئی احتجاج کرتا ہے اور نہ کوئی ان کی بات سننے کا روادار ہے۔کراچی شہر چھ ضلعوں پر مشتمل ایک مسائلستان ہے۔

جو مندرجہ ذیل چھ بڑے مسلوں کا شکار ہے:
1-وفاقی حکومت جس کی بھی ہو، سندھ حکومت سے لڑتی رہتی ہے، کوئی وزیراعظم آج تک کراچی میں ایک رات نہیں رکا۔ دن کی روشنی میں گورنر ہاؤس آتے ہیں ،کروڑوں،اربوں کے اعلان کرتے ہیں،سندھ حکومت کو غصہ دلاتے ہیں اور اسلام آباد روانہ ہو جاتے ہیں۔موجودہ وزیراعظم نے بھی ایک دفعہ 162 ارب روپیہ کا باقاعدہ اعلان کیا۔

پھر 1100 ارب روپیہ کا باقاعدہ اعلان فرما کر یہ جا اور وہ جا۔۔
2- پیپلز پارٹی کی حکومت اس قدر مصمم ارادے کے ساتھ حکومت کرتی ہے، جو جس کا دل ہے کہتا رہے،انہوں نے حکومت کرنے کے جو سنہری اصول بنا رکھے ہیں ان کو مد نظر رکھ کر کام کرتے ہیں۔۔      عباس تابش نے موجودہ حکمرانوں وفاقی و صوبائی کے لیے کتنی اچھی بات کی ہے۔ دھائی دیتا رہے جو دھائی دیتا ہےسنا ہے بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے
3- متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین جنہوں نے کراچی کو تباہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جس کا بذات خود ہجرت کرنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔


4-حکومتی محکموں نے بھی اس شہر کو کھنڈر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کراچی شہر جو کئی ملکوں سے بڑا ہے۔ اس کے طول وعرض کو بیچ دیا گیا ہے اور ایک ایک انچ کو چار چار چھ چھ محکموں کے اہلکاروں نے الگ الگ بیچا ہے، مثلاً اگر کوئی آدمی کسی علاقے میں گنے کا رس نکالنے والا ٹھیلہ لگاتا ہے تو دوسرے دن صبح کے ایم سی کا اہلکار تشریف لائے گا۔

پھر کچھ ہی دیر میں کالی وردی پہنے پولیس موبائل، پھر ٹریفک، شام کو کنٹونمنٹ بورڈ کا اہلکار، پھر خفیہ۔اور علاؤہ کمیٹی، اور وہ دکاندار جس کی دکان سے کافی دور سڑک پر اس نے ابھی یہ گند گھولنا ہے،ابھی گنا بیلنے میں ڈالا نہیں۔ سب کا حصہ نکالے گا تو پبلک اس گنے کا رس پئے گی جس پر ساری رات کتے پیشاب کرتے رہے ہیں۔ مگر ایک بات یاد رکھنے کی ہے اس سارے عمل میں سرکار کو قانونی طور پر ایک دمڑی بھی وصول کرنے نہیں دی جائے گی۔

۔
5-اس وقت کراچی کے ایک ایک چپہ پر قبضہ ہو چکا ہے، بلڈرز مافیا، تمام سرکاری محکموں کے اہلکاروں کا سب سے بڑا منافع بخش کاروبار ہے ہی یہ،کاروباری حضرات، نشئی،ریڑھی رکشا،کار، موٹر سائیکل اور مفت کھانا کھلانے والے ادارے۔۔
6-پورے شہر میں جتنی بھی رھائشی بلڈنگز بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں، ان میں وہ کاروبار ہو رہے ہیں جو مک مکا کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً اللہ دین پارک کے سامنے دو رہائشی بلڈنگز ہیں، صرف ان دو بلڈنگز میں 40 مک مکا کام ہو رہے ہیں جن کا رہائشی بلڈنگز میں کرنا ممنوع ہے۔

اور آخر میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مؤدبانہ گزارش ہے۔غریب یا متوسط طبقے کے لوگ جب اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی سے اگر کوئی فلیٹ یا چھوٹا موٹا گھر بلڈرز سے خرید لیتے ہیں اور رہائیش اختیار کر لیتے ہیں تو اس بلڈنگ کے گرانے سے سیمنٹ اور سریہ نہیں ٹوٹتا وہ خاندان نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ بلڈرز بھی پیسے لے چکا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :