طویلے کی بلا بندر کے سر

بدھ 19 مئی 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

قدیم زمانے میں توہم پرست لوگوں کا عقیدہ تھا کہ "بلا" جب آتی ہے تو جو جانور باندھا ہوتا ہے، اس کو ہلاک کر دیتی ہے اور کم ازکم ایک جانور کی قربانی اسے  درکار ہوتی ہے۔ طویلے سے مراد اصطبل کی طرح کی ایک جگہ یے جو بغیر چھت کے بھی ہوسکتی ہے جس میں جانور باندھے جاتے ہیں۔"طویلے کی بلا بندر کے سر" کا مطلب یہ ہے  کہ اس وقت توہم پرستی کی وجہ سے لوگ اس جگہ بندر کو باندھ دیتے تھے کیوں کہ عقیدے کے مطابق بلا کو کسی بھی جانور کی قربانی درکار ہوتی تھی- لوگ چاہتے تھے کہ قیمتی مویشی بچ جائیں لہذا بندر کو باندھ دیا جاتا تھا- ایسا ہی کچھ ہماری موجودہ حکومت بھی اپنے مختلف اقدامات سے کر رہی ہے-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے 2 مئ, 2021 کو سیالکوٹ میں بازار کا دورہ کیا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ بھی لیا اور ناقص کارکردگی کی بنا پر اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف صاحبہ کو کھڑے کھڑے خاصے سخت لہجے میں برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ افسر شاہی کی کارستانیاں حکومت بھگت رہی ہے، آپ اے سی ہیں تو عوام کا سامنا کریں چھپ کیوں رہی ہیں؟ ہر شہر کے رمضان بازار کا دورہ کیا مگر سب سے برا حال سیالکوٹ کا ہے، آپ کی حرکتیں ہی اسسٹنٹ کمشنر والی نہیں۔

(جاری ہے)

کس بے غیر ت نے آپ کو اے سی لگایا ہے؟ جس پر اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ احتجاجاً محترمہ کو وہیں چھوڑ کر موقع سے تھوڑا ہٹ کر کھڑی ہو گئیں- اس واقعے پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا مگر کل سے یہی واقعہ سوشل میڈیا پر موضوع بنا ہوا ہے- نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ دنیا بھر کی نیوز بشمول بی بی سی، وائس آف امریکہ اور دیگر سوشل میڈیا  میں بھی یہ واقعہ فوری خبر بنا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت کو ابھی تک اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ دنیا اب سچ مچ گلوبل ویلج بن چکی ہے- ادھر ایک بات رونما ہوتی ہے اور دوسرے لمحے وہ بلاگز پر خبر بن کر چل رہی ہوتی ہے تو ایسی صورتحال میں ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے- دنیا میں پہلے ہی ہم زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھے جا رہے اور اس تاثر کا بوجھ بحیثیت قوم ہمیں اٹھانا پڑتا ہے جس کی حالیہ مثال ہمارے ملک پر وہ تجارتی پابندیاں ہیں جو ناموسِ رسالت کے نام پر کی گئی قتل و غارت کیوجہ سے ہم پر لگی ہیں- جن کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ہمیں مزید چیلنجز کا سامنا ہوگا مگر اس پر بات کرنے اور اس کو موضوع بنانے کی بجائے حکومتی نمائندہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ اٹھ کر ایک نیا کٹہ کھول دیتی ہیں جو بظاہر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک سوچی سمجھی سکیم معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا بہت آسان ہے_ اگر رمضان بازار کی کارکردگی ناقص تھی تو اس کے لئیے باقاعدہ رپورٹ بنائ جاتی اور محکمے کو بھجوا کر باقاعدہ اس کی جواب طلبی کی جاتی بلکہ قانون کے مطابق سزا بھی دی جاتی اور اگر آپ اتنے جوگے نہیں تھے تو کم از کم اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو ان کے آفس میں پرائیویٹلی سرزنش کرتے، یہ جاہلوں کی طرح سرعام ایک آفیسر کو بےعزت کرنا کہاں کا قانون ہے-
اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ پی ٹی آی کے آفیشل سوشل میڈیا صفحے پر آج کا نوٹ اس واقعے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا- ملاحظہ کیجیے :
" میڈم میچنگ ماسک ضرور پہنیں، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھیں ، سرکاری گھر ،  گاڑی ، پیٹرول ، میڈیکل ، اینٹرٹینمنٹ ، اور افسر شاہی ضرور ضرور  انجوائے کریں ، لیکن اپنا رویہ بدلیں کام نہ کرنے کے کم از کم بہانے ہی مضبوط کر لیں ، اگر آپ ایک عوامی لیڈر جس نے الیکشن میں 50  ہزار ووٹ لیے ہوں جس کی پارٹی برسراقتدار ہو اس کو خاطر میں نہی لا رہی تو عوام کا تو پھر خدا ہی حافظ ہے ، چیف سیکرٹری صاحب "کس بیغیرت نے آپ کو لگایا" والا جملہ آپ کو لڑگیا ہے ہم جانتے ہیں ابھی آپ کا نون لیگ کے دور کا عیاشیوں والا خمار نہیں اترا اپنے آپ کو بدلیں ، ابھی تو آپ نے عمران خان کو دو تہائی اکثریت نہی لینے  دی جس دن الله نے ان کے ہاتھ اور مضبوط کئے آپ خود اس دن بازاروں میں جا کر عوام کے مفاد کی حفاظت کریں گے"-
یہ نوٹ دیکھ کر یقین مانیے کوئی صاحب شعور شخص خوش نہیں ہو سکتا-  میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہمیں بحیثیت قوم کس جانب دھکیلا جارہا ہے اور بدقسمتی کے یہ بادل کب  چھٹیں گے اور نہ جانے کبھی چھٹیں گے بھی یا نہیں -
چیف سیکریٹری پنجاب جواد رفیق ملک  کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سرکاری افسران کی تذلیل کرے-
معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار نے کہا ہے کہ سیالکوٹ کے رمضان بازار میں اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کے ساتھ پیش آئے ناخوشگوار واقعے پر افسوس ہوا۔

میں ذاتی طور پر اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کو جانتا ہوں، وہ ذمہ دار اور قابل آفیسر ہیں۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ کس نے کیسا ردعمل دیا بلکہ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پوچھا کہ آپ کو کس بےغیرت نے یہاں لگایا ہے تو جناب والا ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچتا ہے، ایک باقاعدہ نظام ہے- میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا محترمہ عاشق اعوان صاحبہ پاکستان کے نظام کو للکار رہی ہیں؟ ان کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ وہ دنیا میں ہمارے ملک کے نظام کا مذاق اڑائیں- میں بطور طالبعلم بہت دکھی ہوں اور اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان بھی کہ کیا دن رات کی انتھک محنت کے بعد میں ایک باقاعدہ نظام سے گزرتی ہوئی کسی عوامی خدمت کے عہدے تک پہنچ بھی گئی تو مجھے بھی ان حالات سے دوچار ہونا پڑے گا- یہ موجودہ سرکاری ملازمین اور مستقبل میں سرکاری ملازمتوں میں آنے کے خواہشمند حضرات کیلیے بالخصوص اور عوام کیلئے بالعموم حوصلہ شکن رویے ہیں- میں حکومت سے عوام کی عزت نفس کا خاص خیال اور ہمارے اداروں کی ساکھ کی حفاظت کی توقع کے ساتھ ساتھ وہی سوال ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ الیکشن میں ہار جانے کے باوجود وہ کون سی طاقت ہے جو آپ کو حکومت میں لے آئ اور اب اگر کوئی آپ کو لے ہی آیا ہے تو خدارا دنیا میں ہمارے ملک کی اسطرح تضحیک نہ کی جائے اور سرزنش کیلئے قانونی طریقے اختیار کیے جائیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :