قرآن پاک کی بے حرمتی، حقائق کیا ہیں؟

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

ڈنمارک کی ایک دائیں بازو کی اسلام دشمن انتہا پسند پارٹی جس کا نام ( Stram Kurs) ہے کے سربراہ راسموس پالوڈان کے اشارے پر سوئیڈن کے شہر مالمو میں 28 اگست کو قرآنِ پاک کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا سوئیڈش پولیس کی طرف سے نقصِ امن کے خدشے کی وجہ سے راسموس پالوڈان کو اِس اجتماع میں شرکت کی اجازت نہیں ملی اور اس اجتماع کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا مگر راسموس کی جماعت کے لوگ باز نا آئے اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی جس کے بعد سوئیڈش پولیس نے اْن تین افراد کو گرفتار کر لیا جو اِس واقع میں ملوث تھے اور راسموس پالوڈان کے سوئیڈن میں داخلے پر دو سال کی پابندی لگا دی اس واقع میں جہاں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی گئی وہاں اس کے بعد قرآنِ پاک کو جلا کر شہید بھی کیا گیا.

اس واقع کے بعد سوئیڈن میں بسنے والے 300 کے قریب مسلمانوں نے مالمو شہر میں شدید احتجاج کیا جس میں سڑکیں بلاک کی گئیں، ٹائروں کو آگ لگائی گئی اور پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جس کے بعد مختلف مساجد کے اماموں نے مداخلت کی اور سوئیڈش پولیس کے مثبت کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مظاہرین سے اپیل کی کے سوئیڈش پولیس نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس مظاہرہ کی اجازت نہیں دی تھی اور اس پارٹی کے سربراہ کو بھی سوئیڈن کی سرحد سے گرفتار کر کے نہ صرف واپس ڈنمارک بھیج دیا بلکہ اس کے سوئیڈن میں داخلے پر بھی دو سال کی پابندی عائد کر دی ہے جس کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے مگر حالات کچھ دِن تک تناؤکا شکار رہے.


اس واقع میں کوئی سوئیڈش باشندہ ملوّث نہیں ہے اور یہ حرکت ڈنمارک کے چند متعصب لوگوں کی طرف سے کی گئی ہے جو مسلمانوں کی اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب خائف ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں اس طرح کی حرکتیں کر کے مسلمانوں کو اشتعال دلواتے ہیں تاکہ اس کے بعد مسلمان احتجاج کریں اور اْن پر توڑ پھوڑ اور جلاوٴ گھیراوٴ کے الزامات لگا کر اْن کو شدت پسند ثابت کر کے ان پر اپنے ملک میں پناہ لینے پر پابندی لگوائی جا سکے.


سوئیڈن کے شہر میں اس حرکت کا مقصد بھی یہی نظر آرہا ہے کیونکہ سوئیڈن میں بھی کچھ طاقتیں موجود ہیں جو سوئیڈن کی موجودہ حکومت کی امیگریشن کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہیں اور پردہ کے پیچھے رہتے ہوٴے اس طرح کی اشتعال انگیزی کی سپورٹ کر کے سوئیڈن میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی انتہا پسند ثابت کر کے 2022 کے الیکشنز میں ووٹ حاصل کر نا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لئیے راسموس پالوڈان کی مدد لی جا رہی ہے.


راسموس پالوڈان کون ہے اور اچانک کیسے ایک بڑی گیم کا مہرہ بنا ہے آئیے جانتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ شخص ڈنمارک کے شہر نورڈ خویلان میں پیدا ہوا اور 2000 میں آرمی کی لازم ایجوکیشن کے بعد اس نے 2008 وکالت کی ڈگری حاصل کی یہ شخص شروع سے ہی انتہائی ضدی اور جھگڑالو تھا اور سستی شہرت کے لیے عجیب و غریب حرکتیں کرتا رہا ہے 2004 میں اس نے ایک لڑکے کو جو اس کا ہم نام تھا اور اس کو اپنا نام استعمال کرنے پر پابندی لگوانے کی درخواست پولیس کو دی اور اگلے چار سالوں میں 10 بار اس لڑکے کو پولیس میں رپورٹ کر کے اس کے لئیے مشکلات کھڑی کرتا رہا.

2006 میں اپنے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے ڈنمارک کی کنزرویٹو یوتھ سوسائٹی کے دو ممبرز کو جرمانہ کروایا 2008 میں اس نے کسی کی طرف سے فیس بک کے ایک گروپ میں ہم جنس پرستی کے خلاف کمنٹیس کرنے پر اپنے ہم نام لڑکے کو جرمانہ کروایا. 2013 میں اس پر یونیورسٹی کے ایک سابقہ طالبعلم کے ساتھ رابطہ کر نے اور اس کے نزدیک جانے کی کوشش پر پر 5 سال کی پابندی لگا دی گئی 2015 میں اس کو ایک پولیس والے کو دھمکی دینے پر اس کو جرمانہ کیا گیا اور ساتھ ہی اس کا دماغی معائنہ بھی کیا گیا جس میں اس کو دماغ پر چوٹ کا انکشاف ہوا جو کہ 2005 میں ایک اکسیڈنٹ کی وجہ سے ہوا.

اس نے ڈاکٹروں کو یہ بتایا کہ اس کے رویہ میں اس کے بعد ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ وہ عدم برداشت کا شکار ہوا ہے اور دوسروں کی غلطی کو معاف نہیں کرسکتا ہے 2019 میں اس کو 14 دن کے لئیے جیل بھیجا گیا وجہ افریقن لوگوں کی ذہنی صلاحیت پر تنقید کی اس کی ایک یو ٹیوب ویڈیو تھی جو اس نے 2018 میں یو ٹیوب پر آپ لوڈ کی تھی جس میں اس نے افریقن باشندوں کے آئی-کیو کو انتہائی نچلے درجے کا قرار دیا.


 2017 میں اس نے اس دائیں بازو کی اسلام دشمن انتہا پسند پارٹی (Stram Kurs) کی بنیاد رکھی جسے اردو میں “ سخت گیر نقطہ نظر” یا انتہاپسندانہ کہا جا سکتا ہے اس پارٹی کی بنیاد کا مقصد ڈنمارک پیپلز پارٹی کی سپورٹ کرنا تھا اور وہ پارٹی بھی دائیں بازو کی ایک انتہا پسند جماعت ہے اور اپنی امیگریشن قوانین کے خلاف ہونے کی وجہ سے اکثریت کھو رہی تھی
اس پارٹی کو بنانے کے بعد اس نے اسلام مخالف احتجاج کرنے شروع کر دئیے اور ڈنمارک میں مسلم اکثریت آبادیوں میں جا کر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنی شروع کر دی جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔ ان مظاہروں کا مقصد 2019 میں ڈنمارک میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کرنے تھے جو ڈنمارک کی امیگریشن پالیسیز کے خلاف تھے اور مسلمانوں کو انتہا پسند سمجھتے ہیں۔ ان اسلام مخالف حرکتوں کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کو اشتعال دلوانا اور مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اْن کو انتہا پسند ثابت کر کے امیگریشن قوانین میں تبدیلی کے لئیے ووٹ حاصل کرنا تھا.

وہ اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہا کیونکہ 2019 میں ڈنمارک کی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کو انتخابات کے بعد اپنی حکومت بنانے میں دوسری پارٹیوں کی امیگریشن کے قوانین پر تحفظات کو دور کرنے کی شرط پر اْن کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑی اس کی ان حرکتوں پر 2019 میں ڈنمارک کے وزیراعظم لارش لوکے راسمسن نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پالوڈان کی حرکتوں کو بے معنی اور لا حاصل اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ بحث کے ذریعے کوئی حل نکالنے پر زور دیا.

مگر صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے ساتھ بحث کو لا حاصل قرار دیا اور اس کو سپورٹ کرنے والے میڈیا پر سخت تنقید کی تازہ ترین واقغات میں 9 ستمبر کی صبح سویرے 5 بجے کے قریب ایک بار پھر ڈنمارک سے آنے والے راسموس پا لوڈان کے ساتھیوں نے سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مسلم اکثریتی علاقے رنکے بی مظاہرہ کی اجازت نہ ملنے کے باوجود قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی اور موقع سے فرار ہو گئے جن کی تلاش سوئیڈن کی پولیس کی شروع کر دی تھی.


یہ لوگ اسٹاک ہوم کے مختلف مسلم اکثریتی علاقوں میں اس قسم کی مزید اشتعال انگیزی والے احتجاج کی اجازت مانگ رہے ہیں آنے والے 10 ستمبر سے شروع ہونے والے ویک اینڈ پر مگر اسٹاک ہوم کی شہری انظامیہ اور پولیس کسی طور پر بھی اس اجازت کو دینے کے حق میں نہیں ہیں اور اس موقع پر ہونے والی کسی قسم کے غیر قانونی احتجاج سے نمٹنے کے لئیے پوری طرح تیار ہیں.

میرے خیال میں سوئیڈن میں بسنے والے تمام مسلمانوں خصوصاً تمام پاکستانیوں کو بہت احتیاط کرنی پڑے گی کیونکہ ان اشتعال انگیزیوں کا مقصد آنے والے الیکشنوں میں کچھ طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کو انتہا پسند ثابت کر کے کچھ مخصوص طاقتوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جو آنے والے الیکشنز کے بعد امیگریشن قوانین میں تبدیلی چاہتی ہیں سوئیڈش حکام اور پولیس اس تمام معاملے میں ایک مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور کوئی سوئیڈش باشندہ ایسے کسی بھی اشتعال انگیزی کے واقع میں ملوث نہیں ہے لہٰذہ سب پاکستانیوں کو انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :