بوسنیا میں مقیم پاکستانی پناہ گزینوں کی مشکلات!

منگل 24 نومبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

کچھ دِن پہلے بوسنیا کے ایک خبر رساں ادارے کی ایک خبر نظر سے گزری جسے پڑھ کے بہت دْکھ ہوا خبر کچھ یوں تھی کے بوسنیا کے ایک سرحدی شہر جس کا نام بیہاچ ہے جس کی سرحدیں یورپی یونین کے ملک کروشیا سے ملتی ہیں۔ اس کیمپ میں تقریباً 500 سو سے 1 ہزار کے قریب یورپ جانے کے خواہش مند مہاجرین اور تارکین وطن بوسنیا کے اس “ لیپا ٹینٹ کیمپ” نامی کیمپ میں شدید سردی میں رہنے پر مجبور ہیں ان میں سے تقریباً 300 کے قریب یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانی بھی اس کیمپ میں مقیم ہیں اور قریباً اتنی ہی تعداد میں افغانی تارکینِ وطن بھی اس کیمپ میں مقیم ہیں۔

باقیوں کا تعلق شام اور عراق اور بہت سے مختلف ممالک سے ہے تقریباً دو ماہ پہلے ایک دوسرے کیمپ میں افغان تارکینِ وطن اور پاکستانی تارکینِ وطن کے درمیان لڑائی ہوئی جس سے دو پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کے بعد انتظامیہ نے اْس کیمپ کے پناہ گزینوں کو بھی اسی لیپا نامی کیمپ میں منتقل کر دیا۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی امدادی ادارے اس کیمپ کو پہلے ہی خطرناک اور غیر انسانی ماحول کا حامل کیمپ قرار دے چکے تھے کیونکہ غیر قانونی طریقے سے جانیوالے افراد بارڈر کے نزدیک رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو جیسے ہی موقع ملے وہ یورپ میں داخل ہو جائیں اس دوران بدقسمتی سے کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں رپورٹس کے مطابق لیپا کیمپ میں موجود مہاجرین اور تارکین وطن کو دن میں صرف ایک بار ہی کھانا میسر آتا ہے جو کہ امدادی ادارے ہلال احمر کے کارکن تقسیم کرتے ہیں بیہاچ میں موجود کیمپ مقامی انتظامیہ نے مرکزی حکومت کی جانب سے تنقید کے بعد قائم کیا تھا اس کے لیے جس مقام کا انتخاب کیا گیا تھا وہاں پہلے فضلہ پھینکا جاتا تھا۔

یورپ جانے کے خواہش مند اکثر تارکین وطن بوسنیا کے راستے کروشیا سے یورپ میں داخل ہونے کوشش کرتے ہیں اس لیے مہاجرین کی زیادہ تعداد پر مقامی انتظامیہ کو مرکزی حکومت کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین میں حکومت کی معاون نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اب بوسنیا کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ان علاقوں میں اب چھ ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں وکجیک کیمپ بوسنیا کے اس علاقے سے زیادہ دور نہیں ہے جہاں 1992 سے 1995 کے درمیان جنگ کے دوران بارودی سرنگیں اور دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا جہاں اب بھی ایسی دھماکہ خیز سرنگیں ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس کیمپ میں موجود افراد دن بھر قریبی جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے میں گزارتے ہیں تاکہ رات میں ان سے آگ لگا کر تپش حاصل کر سکیں بوسنیا کی شدید سرد راتوں میں یہ ان لوگوں کو گرمی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہے اس کیمپ میں چونکہ بنیادی ضروریات کے انتظامات نہیں ہیں اس لیے نہانے سمیت دیگر ضروریات یہاں کرنا ممنوع ہے اس کے کیمپ میں مقیم افراد کو کھلے علاقے میں جانا پڑتا ہے جہاں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے آرام دہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

کچھ دن پہلے اس کیمپ میں مقیم ایک شامی پناہ گزین کے ہاتھوں ایک مقامی باشندے کے قتل کے بعد حالات مزید خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں اس واقع کے بعد بوسنیّن باشندوں نے پورے مْلک میں احتجاج کیا اور بوسنیّن حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ مہاجرین کی اپنے مْلکوں میں واپس بھیجنے کا بندوبست کریں بصورت دیگر وہ اپنے طور پر کوئی انتہائی قدم اْٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جنوری میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز کو وزارت خارجہ کے سینئر آفیسر نے بوسنیا کے امیگرانٹ کیمپ کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بوسنیا میں پاکستان کے سفیر خالد راؤ بارہاکوششیں کر چکے ہیں کہ اس کیمپ میں موجود پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا جائے لیکن کوئی واپس آنے کو تیار نہیں۔ اب یہاں سوچنے والی بات ہے کیا وجہ ہے وہ اپنے ْملک واپس آنے کی بجائے اپنی جانیں داوٴ پر لگا کر ہر صورت کروشیا کی سرحد پار کر کے یورپ میں داخل ہونا چاہتے ہیں؟ حالانکہ اس وقت جو بھی کوئی سرحد کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو اْس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کی رپورٹس کافی زرائع ابلاغ کے اداروں کی ویب سائٹس پر موجود ہیں جنہیں پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔

خبر ہے کہ وزارت اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے لیئے ایف آئی اے کو 190خطوط لکھے گئے جن میں 4سو کیسز کا حوالہ دیا گیا تمام کیسز ایف آئی اے کے پانچ زونز کو بھجوائے گئے جس میں سے 68کیسز تصدیقی مرحلے میں ہیں جبکہ 92کیخلاف انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ ایڈیشنل ڈی جی ایف ا?ئی نے بتایا کہ وزارت اوورسیز کی جانب سے انسانی سمگلنگ کے حوالے سے بھیجے گئے 4سو کیسز میں سے صرف 2 ہی کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جبکہ 28 کیسز عدم شواہد کی بناء پر خارج کر دیئے گئے ہیں اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجانے کب تک نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں اسی طرح صعوبتیں برداشت کرتے رہیں گے اور نجانے کب تک ان انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنی اولادوں کے بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھی ماوٴں کی گودیں اجڑتی رہیں گی کب حکومت ہوش کے ناخن لے گی اور کب نوجوانوں کے لیئے کوئی روزگار کے مواقع پیدا کرے گی کب وہ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا ہوگا اور کب نوجوان بہتر مستقبل کی خاطر یورپ اور امریکا کا رْخ کرنے کی بجائے اپنے ْملک میں میسّر روزگار کے مواقع حاصل کر سکیں گے؟ کیونکہ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے چہار ْسو مایوسی ہی مایوسی ہے!۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :