حقیقی ریاست مدینہ بنام وزیراعظم عمران خان!

منگل 11 مئی 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

منصوبہ تو ذہن میں برسوں سیہے اور منصوبہ بھی وہجسے آپ ﷺ نے ریاست منصوبہ میں متعارف کرایا تھا۔منصوبہ شہروں کی آبادکاری سے متعلق ہے اور اسی کے ساتھ امن و امان اور زندگی کی دوسری تمام سہولیات بھی نتھی ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو اس میں آباد کاری کا بھی ایک جامع نظام متعارف کرایا ۔بات آگے بڑھانے سے پہلے آبادی اور آبادکاری میں فرق ملحوظِ خاطر رکھ لیا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔

آبادی لوگوں کی افزائش نسل کی شرح وغیرہ کا نام ہے جبکہ آبادکاری ، اس آبادی کو بسانے اوروہاں تک بنیادی ضروریات کی ترسیل کا نام ہے ۔اگر کسی بھی شہر یا ملک کی آبادی کو بسانے میں منصوبہ بندی شامل نہ ہو تو وہاں اسی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں جس طرح کے مسائل کا شکار ان دنوں لاہور اور کراچی ہے اور اگر منصوبہ سازوں کی آنکھیں نہ کھلیں تو بہت جلد دیگر شہر بھی انہی مسائل کا شکار ہوں گے ۔

(جاری ہے)

طرفہ تماشا یہ ہے کہ کوئی حل نکالنے کی بجائے صاحبان اقتدار ان شہروں کے مسائل پر سیاست کرتے ہیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ، اگر بارش ہوتی اور لاہور کے نشیبی علاقے پانی میں ڈوب جاتے تو تحریک انصاف یہ نعرہ لگایا کرتی تھی کہ شہباز شریف کی ترقی کا پول ایک بارش نے کھول دیا ۔حالانکہ اب ان کی حکومت ہے تو انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟اس مسئلے کی جانب بڑھنے سے پہلے آپ کو واپس ریاست مدینہ میں لیے چلتے ہیں ۔


نبی کریم ﷺ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو وہاں آبادکاری سے متعلق ایک جامع نظام دیا جس میں سب سے اہم پہلو شہر کی حد بندی تھی ۔اس ضمن میں آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی حد بندی فرمائی ۔اگر ہم سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی جانب بطحا، مشرق کی طرف بقیع الفرقد اور شمال مشرق میں بنوسعدہ کو مدینہ منورہ کی حد قرار دیا ۔

یعنی اس دور میں جو بھی تقاضے تھے ، ان کو مدنظر رکھا اور شہر کی حدود متعین فرما دیں کہ یہ شہر ان حدود سے زیادہ نہیں پھیلے گا تاکہ کسی قسم کا انتظامی مسئلہ پیدا نہ ہو۔بلکہ مقامی لوگوں کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے دوسرے شہر کے لوگوں کے یہاں آباد ہونے پر پابندی بھی لگائی جیسا کہ قبیلہ بنوسلمہ نے مدینہ منورہ میں آباد ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا ۔

اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ میں آپ ﷺ نے یہ نظام بھی متعارف کرایا ہوا تھا کہ شہر میں کسی قسم کی آبادکاری ریاست کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی بلکہ ہونے والی آبادکاری پر بھی گہری نظر رکھی جاتی تھی جیسا کہ روایت ہے کہ آپ ﷺ ایک مکان میں رکھے گئے روشندان اور ایک دوسرے مکان پر لٹکائے بڑے بڑے کپڑوں سے متعلق بھی رہنمائی فرمائی ۔


نبی کریم ﷺ کے کسی بھی شہر کی حدبندی میں بنیادی حکمت یہی تھی کہ شہر کا نظام چلانے میں آسانی ہو اور کسی قسم کی پریشانی نہ ہو ۔یہی وہ نظام ہے جسے علامہ محمد اقبال  نے مشہور زمانہ ڈکٹیٹر مسولینی کو بتایا تو اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر اسے سراہا اور اپنے ملک میں نافذ بھی کیا ۔افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ مغرب نے کافر ہو کر بھی اس نظام کو اپنایا اور اپنے شہروں کو جنّت نظیر بنایا اور ہم نے مسلمان ہو کر اس نظام سے دور ی اختیار کی اور نتیجتاً ہمارے شہر مسائل کی آماجگاہ بن گئے ۔

بطور مثال صرف کراچی اور لاہور ہی لے لیں۔ان شہروں کی آبادکاری میں حدبندی کا اصول لاگو نہیں کیا گیا اور یہ شہر پھیلتے چلے گئے ۔چونکہ جتنے رقبے میں یہ شہر پھیلے ہوئے ہیں، وہ سارا رقبہ مستوی نہیں ہے،اگر بارش ہو گی تو ظاہر ہے کہ پانی نشیبی علاقوں کی جانب ہی جائے گا۔ سینکڑوں کلومیٹر تک شہر ہی شہر آباد ہے تو لوگ کوڑا ڈالنے کے کیونکر اتنا سفر کریں گے ؟اس میں شہباز شریف ہو یا عثمان بزدار ، کسی کا کیا قصور ؟ان مسائل کا کیا حل ہے ؟بس یہی کہ مشینیں لگا کرسیلابی پانی نکالتے رہو اور جتنی دیر تک پانی نہیں نکلتااتنی دیر عوام برداشت کریں اوراپوزیشن سیاست ۔


لیکن اگر شہر منصوبے کے تحت بسائے جائیں ، ان کی حد ، آبادی کی حدود ، شہر کی تعمیر کے لیے مطلوبہ زمین کا سروے بھی کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ کراچی اور لاہور کی طرح صفائی ، امن وامان اور سیوریج کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے بلکہ شہر کے تمام باسیوں تک صحت اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کی ترسیل بہت آسانی سے ہو سکے گی ۔جب ہر شہر میں اس طرح کی سہولیات میسر ہوں گی تو لوگ کسی دوسرے شہر کی جانب ہجرت نہیں کریں اور یوں کسی شہر کا نظام آبادی کے بوجھ تلے دب کر مفلوج نہیں ہو گا ۔

جب شہر مقررہ آبادی اور حدوں تک پہنچ جائے تو مناسب فاصلہ چھوڑ کر ایک نیا شہر بسایا جائے ۔اس طرح کوئی سے دو شہروں کے درمیان خالی علاقہ نہ صرف صاف ستھری آب و ہوا مہیا کرے گا بلکہ سبزیوں اور اناج سے متعلق بنیادی ضروریات بھی سستی اور تازہ میسر رہیں گی۔امن ِ عامہ قائم رکھنے میں آسانی ہو گی ۔ ایسا نہیں ہو گا کہ لاہور اور کراچی کی طرح کروڑوں کی آبادی میں دہشت گرد چھپ جائیں تو ڈھونڈنے میں مشکل ہو ، اگر مل جائیں تو آبادی کی وجہ سے آپریشن کرنے میں مشکل ہو اور خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو وہاں تک پہنچنے میں مشکل ۔

یہ ایک جامع نبوی منصوبہ ہے جس کے لیے کئی صفحات درکار ہیں ۔لاہور اور کراچی کے چاروں اطراف مزید تعمیر پر پابندی کیا لگتی بلکہ اب تو اسلام آباد بھی روات کی حدوں کو چھو رہا ہے ۔کوئی ہے جو اس جانب توجہ دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :