
قیادت کا امتحان
بدھ 14 جولائی 2021

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
ہمارے سابق سپہ سالار اِسی سپر طاقت کے سامنے ایک کال کے نتیجہ میں ڈھیر ہو گئے، اس کی حمایت میں اتناآگے چلے گئے کہ ملک کی سالمیت اور خود مختیاری تک داؤ پر لگا دی ،پرائی جنگ کو سرحد میں داخل کر کے اس ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی جو حماقت انھوں نے کی اس کی بھاری قیمت اس قوم کے عسکری جوانوں کو ادا کرنا پڑی ہے، نجانے یہ سلسلہ کب تلک جاری رہتا ہے۔
اس وقت قومی قیادت کا یہ اعتراف کہ غیر کی جنگ میں کود کر غلط فیصلہ کیاگیا، ُزود پشیمان کا پشیمان ہونے کے مترادف ہے، اس وقت بھی کچھ محب وطن حلقے اس پالیسی کے بڑے ناقد تھے، اُس وقت جماعت اسلامی کے اَمیر سید منور حسن مرحوم نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گو امریکہ گو کی تحریک کا آغاز کیا تھا، آج مقتدر طبقات اِسی بات کے حامی نکلے کہ خطہ میں مسائل کی بڑی وجہ غیر ملکی افواج کا وجود ہے بھاری بھر جانی اور مالی نقصان اٹھانے ، محب وطن قبائل کو اپنے مخالف لا کھڑا کرنے کے بعد اب سانپ کی لکیر پیٹنے سے کیا حاصل ہو گا۔
یہ کریڈٹ تو اہل افغان کو جاتا ہے کہ انھوں نے نہتے ہو کر بھی اَپنا سر عالمی طاقت کے سامنے سرنگوں نہیں کیا بلکہ سازوں سامان چھوڑ کر اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے،میڈیا کی آنکھ سے جب امریکی عوام یہ دیکھے گی کہ اس کے بھاری بھر ٹیکسوں سے خرید کی گئی دفاعی گاڑیوں کوعام افغان شہری پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کر رہا ہے نیز ان کے بہادر فوجی چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں سامان بگرام ائیر پورٹ پر چھوڑکر بھاگ پڑے تو ان کے دل پر کیا گذرے گی؟
سب سے مظلوم تو کابل انتظامیہ ہے جس کو بھی مطلع کر نے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی،اس فعل سے نہ صرف یہ خود یتیم ہو گئے
بلکہ افغان سیکورٹی فورسز کو بھی بے آسرا ہو نا پڑا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سویت یونین نے نجیب اللہ اور افغان فورسز کواپنی شکست کے بعد جب چھوڑا تھا تو وہ موجودہ افغان سیکورٹی فورسز سے زیادہ مضبوط تھی،اسکافضائی بیٹرہ زیادہ وسیع تھا،البتہ موجودہ افغانی صدر نجیب کے مقابلہ میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔
ماسکوکا سرکاری دورہ کرنے والے طالبانی وفد کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں،اس سے قبل طالبان کے وفد نے تہران کی دعوت پر ایران کا دورہ بھی کیا تھا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ طالبان بدلتے ہوئے حالات کی بابت اپنی صف بندی کر رہے ہیں،انھیں روس اور چین کی حمایت بھی مل رہی ہے،مذکورہ ممالک نیا علاقائی نظام لانے میں مصروف ہیں،چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جسکا چھوٹاحصہ افغانستان کی شمولیت کے بغیر نامکمل رہے گا، علاقائی استحکام کے لئے بیجنگ اور روس شنگھائی تعاون برائے ترقی پلیٹ فارم سے افغانستان میں نئے کردار کی تیاری میں مگن ہیں۔اگر چین افغانستان میں اپنا کردار یکسوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے تو بھارت کابل سے باہر ہو جائے گا۔البتہ طالبان کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر اس نے کابل ائر پورٹ پر قبضہ کی دانستہ کاوش کی تو اس سے سفارتی مشن کا عمل رک جائے گا ،جس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ وہ طبقہ متاثر ہو گا جو بیرون ملک ہے کیونکہ آسٹریلیا نے عارضی طور پراپنا سفارت خانہ بند کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔
طالبان کو اللہ تعالیٰ نے انسانی خدمت کا ایک اور نادرر موقع فراہم کیا ہے اب اِنکے ناتواں کاندھوں پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ اپنی سیاسی قوت کو عوامی خدمت کے لئے استعمال کر کے عوام کے دلوں پر راج کرنے کی طرح ڈالیں، عالمی طاقت اور دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات میں جس طرح انھوں نے میچورٹی کا مظاہرہ کیا اوربدیشی فوج کو پر امن انخلاء کا موقع فراہم کیا ہے، اسی طرح پر امن افغانستان سب کا خواب ہے۔
افغانستان کی ریاست پر تمام سٹیک ہولڈرز کا حق ہے لہذا طالبان قیادت کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس ملک کی عوام کے لئے جو موزوں ہے اس پر کھلے دل سے مشاورت کر تے ہوئے ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے، جنہیں عوامی سطح پر شرف قبولیت حاصل ہو، اور وہ تمام سیاسی قوتیں جو ماضی میں جہاد افغانستان میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہیں، انھیں بھی سیاسی عمل میں شریک کر کے داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی، اس گلوبل ولیج میں وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔شریعت کے نفاذ سے قبل انھیں تمام مکاتب فکر، اہل دانش، اور یو نیورسٹی اساتذہ سے بھی مشاورت کر نا ہوگی،گرینڈ جرگہ کے ذریعہ وہ شرعی احکامات کے لئے انھیں آئین کا سہارا لینا ہو گا۔
لاک لینڈ ریاست کو اپنے ہمسایہ ملکوں پر لازما انحصار کرنا ہے، اور پھر سی پیک کی صورت میں ایک بڑا اقتصادی منصوبہ ان کے لئے خوشحالی کا پیغام لا سکتا ہے،اس سے مستعفید ہو نے کے لئے انھیں اپنی افرادی قوت کوکسی فن سے آراستہ کر نا ہوگا،میڈیا میں
طالبان کے خوف سے خواتین کے لئے ٹوپی نما برقعوں کی ڈیمانڈ بڑھنے اور مردوں کو داڑھی بڑھانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ،
سب سے زیادہ اہم عمل لا تعدادبیوگان کی کفالت اور قومی معاشی ترقی ہے ،قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملا کر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر نے میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ انکی بڑی سیاسی کامیابی ہوگی۔
امت مسلمہ درد دل رکھنے والی قیادت سے محروم ہے،اس خلاء کو پر کرنے کے لئے ترکی، پاکستان، ملایشاء،قطر سے مل کر ایسا اہتمام کر نا ہے کہ آئندہ طاقت ور ملک کو کسی اِسلامی ملک پر جارحیت کی جرات نہ ہو، ایران کے ساتھ طالبان وفد کی ملاقات بڑا بریک تھرو ہے، طالبان اپنی پالیسی سے ہمسایہ برادر ممالک کے ساتھ ساتھ اسلامی برادری کو بھی کسی بڑی مشکل میں نہ ڈالیں، یہی اس قیادت کا امتحان ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.