ایشیاء کا نیلسن منڈیلا

منگل 14 ستمبر 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کانوں پر ہیڈ فون لگائے مغربی اور روایتی لباس میں ملبوس ایک ہی چھت کے نیچے برا جماں گو شت پوست کے یہ انسان نجانے کیسا دل رکھتے ہیں، کہ بچوں، خواتین کی آہ و بکاہ بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی،کسی مظلوم کا رونا بھی ان کے دل کو نرم نہیں کرتا، کسی کی چیخ وپکار بھی ان کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتی، یہ اُسی دنیا کے باشندے ہیں جہاں شب و روز کا تماشہ میڈیا کی آنکھ سے دکھایا جاتا ہے،یہ ہر گز اس سے بے خبر نہیں ہیں، دنیا میں نجانے کتنے بے یارودمدگار، بے بس اور غلامی کی چکی میں پسنے والے عالمی ادارہ کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس کے با اختیار نمائندے انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، بس انکا قصور یہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے باسی نہیں ہیں، اِنکی ریاستیں اقوام متحدہ کے بجٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں،ان کے پاس ویٹو پارو نہیں، سلامتی کونسل کے ارکین آخر کس مصلحت کا شکار اور مفادات کے اسیر کیوں ہیں۔

(جاری ہے)


ا لمیہ تو یہ ہے ان میں سے اکثر اِن مظلومین کے موقف کے حمایتی ہیں، تحریری طور پر اِنکے دکھ کم کرنے کی یقین دہانی کروا چکے ہیں سفارتی زبان میں اس حمایت کو اقوام متحدہ کی قرار دادیں کہا جاتا ہے، اِ ن پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرواتے کرواتے نجانے کتنے راہنماء اس دنیا سے اس اُمیداور خوش فہمی سے رخصت ہو گئے کہ وہ عالمی ادارہ جس کے فرائض منصبی میں مظلوم اقوام کو حق خود ارادیت دلوانا اور عالمی امن قائم کر نا ہے وہ غفلت برتنے کا مرتکب نہیں ہوگا، ان میں جنوبی ایشاء کے نامور، بااصول ، نڈر، صاف گو،متحرک را ہنماء ،حق خود ارادیت کے علمبردار سید علی گیلانی بھی تھے ۔


 یہ نوجوان عہد شباب میں پہنچتا ہے تو لاہور کا رخت سفر باندھتا ہے، اورنٹیل کالج لاہور میں زیر تعلیم رہنے کے ساتھ ساتھ سید مودودی سے متعارف ہوتا اور فکری آنکھ اِنکی گود میں کھولتا ہے جب کشمیر سدھارتا ہے تو اس کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے، یہ درویش گوشہ نشینی کو اپنی ریاضت کا مقصد بنانے کی بجائے سیاست اور جہاد کے میدان کا انتخاب کرتا ہے، جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تین بار ریاستی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتا ہے، یہ سیاسی سفر مخالفین کی آنکھ میں خوب کھٹکتا ہے تو انتخاب چرا کر اِسے دوڑ سے باہر کر دیا جاتا ہے، انڈیا اپنی نمک حلال قیادت کو سامنے لاتا ہے اس کی آڑ میں بزور طاقت ہندوہستان کے لئے وفاداری خرید کرنے کی جسارت کی جاتی ہے تو وادی میں تشدد جنم لیتا ہے، سید گیلانی جماعت اسلامی سے مفاہمت کے بعدتحریک حریت کی بنیاد رکھتے پھر آخری دم تک اس پلیٹ فارم سے کشمیریوں کی آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، علامہ اقبال کی شاعری سید کے دل دماغ کو مسخر کرتی ہے، یہ جذبہ جہاد سے سرشار ہوتے ہیں ،اس تڑپ نے انھیں ساری حیاتی چین سے سونے نہیں دیا انھوں نے مظلوم کشمیریوں کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا ۔


کوئی ایسا فورم نہ ہو گا جہاں انھوں نے ہندوہستان کی سرکار کو بے نقاب نہ کیا ہو، اِنکو وعدہ خلافی کا طعنہ نہ دیا ہو، عالمی گماشتوں سے
کہتے رہے کہ انھیں انسان سمجھ کر ہی آزادی دی جائے یہ ہر کشمیری کابنیادی اور پیدائشی حق ہے ۔
انکی پہلی گرفتاری28 اگست1962کو بھارتی پولیس کے ہاتھوں ہوئی، زندگی کا زیادہ حصہ زندان میں گذارنے پر مجبور ہوئے، اس قدر بہادر تھے کہ نظر بندی پر بکتر بند گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں کہتے تھے کہ تمھارے سسٹم کی بنیاد جھوٹ پر ہے یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا، جب میڈیا کے لوگ ان سے سوال کرتے کہ کشمیر میں انتخابات تو ہو رہے ہیں وہ دلیل دیتے کہ ہندوہستان میں برطانوی راج کے دوران بھی انتخابات ہوئے تھے مسلم لیگ، کانگریس اس میں حصہ لیتی رہی ہیں ،اس کے باوجود برطانیہ نے انھیں آزادی سے محروم تو نہیں رکھا۔


سید علی گیلانی نے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے اس نعرہ کو اپنی زندگی کا شعار بنایا، ایک مجاہد کی حثیت سے اپنا مال، جان سب کچھ تحریک آزادی کشمیر پر قربان کر دیا اور ذرا برابر بھی تردد نہ کیا، انکی زندگی کے آخری ۱۲ سال بدترین علالت میں سفاک دشمن کی اسیری میں گذرے،اس وقت انھیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت تھی، جان بوجھ کر اِنکو طبی سہولتوں سے دور رکھا گیا، بھارتی سرکار نے انکو جبراً نظر بند کئے رکھا، مودی سرکار سبز ہلالی پرچم میں لپٹے اِنکے جسد خاکی سے اس قدر خوف زدہ رہی کہ انھیں رات کی تاریکی میںآ سودہ خاک کر دیا، سنگینوں کے سائے میں ایک مجاہد کی موت جہاں ایک طرف شہادت ہے وہاں ریاستی جبر میں قتل کے بھی مترادف ہے۔


اگر بھارت سرکار یہ سمجھتی ہے کہ سید گیلانی کے رخصت ہونے سے یہ تحریک کمزور پڑ جائے گی تو یہ خام خیالی ہے ، سید گیلانی نے کشمیر کے ہر نوجوان کے دل میں آزادی کی ایسی شمع روشن کر رکھی ہے کہ اس وادی کا بچہ بچہ جذبہ حریت سے سرشار ہے اور غلامی کا طوق قبول کرنے کو تیار نہیں، انکی لاز وال قربانیوں کو ایک کالم میں بند نہیں کیا جا سکتا ،تاہم وہ اپنا پیغام اپنی تحریوں اور تقاریر میں نسل نو کی راہنمائی کے لئے چھوڑ گئے ہیں، جس سے ہر حریت پسند استعفادہ کر سکتا ہے۔


سید علی گیلانی پہلے کشمیری ہیں جو رابطہ عالمی اسلامی کے رکن رہے، پاکستان نے انکی خدمات کے صلہ میں سب سے بڑے اعزاز ”نشان پاکستان“ سے نواز تھا وہ دورہ پاکستان کی شدیدآرزو رکھتے تھے لیکن بھارتی سامراج کے کالے قوانین اِنکے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔
انھیں ایشاء کا نیلسن منڈیلا بھی کہا جاتا ہے مجاہد ثانی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، سید گیلانی اور منڈیلا میں جو قدر مشترک ہے دونوں نے اپنی اپنی کیمونٹی کی آزادی کی جدوجہد میں زندگی کا بیشتر حصہ اسیری میں گزارا، مینڈیلا سفید فام حکمرانوں سے آزادی کے لئے جنگ لڑتے رہے، جبکہ سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کا خواب لئے اس جہاں سے چل بسے۔

منڈیلا سے جب پوچھا گیا،کہ لوگ انھیں کس طرح یاد رکھیں گے تو ان کا جواب تھا کہ لوگ کہیں کہ وہ ایسا شخص تھا جس نے دُنیا میں اپنا فرض نبھایا، سید گیلانی بھی اس حوالہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
نجانے عالمی فورم میں بیٹھے افراد کب اس قول کے مصداق بنیں گے جن کی غفلت سے مظلوم اقوام کی دنیا جہنم بنی ہوئی ہے۔
 بانی پاکستان اور علی گیلانی میں بھی ایک قدر مشترک تھی، قائد اعظم کے آخری لمحات میں اِن کے لبوں کر کشمیر کا نام تھا اور علی گیلانی کے ہونٹوں پر پاکستان کا، تاریخ میں علی گیلانی، نیلسن منڈیلا جیسے حریت پسند ہمیشہ زندہ ریتے ہیں لیکن اپنی ہی نسل کے غداری کرنے والے اس میں دفن ہو جاتے ہیں، محبوبہ مفتی کا اب یہ اعتراف کہ ہم نے1947میں ہندوہستان سے الحاق کر کے سنگین غلطی کی ہے کشمیر یوں کے دکھوں کا مداوہ بھلاکر سکے گا، جن کی حمایت میں سید علی گیلانی جیسا مجاہد ریاستی جبر سے لڑتے لڑتے ہزاروں کشمیریوں کو سوگوار چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوا، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :