ٹیکنوکریٹ گھبرا گئے یا انہیں لانے والے

ہفتہ 1 اگست 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

یک دم تمام چینلز کی اسکرینزپر تہلکہ مچ گیا کہ وزیراعظم عمران خان کے دو مشیران تانیہ ایدروس اور ڈاکٹر ظفر مرزانے استعفیٰ دے دیا۔تانیہ ایدروس نے وجہ لکھی کہ میری دہری شہریت کو ایشو بنایا جا رہا ہے اورظفر مرزا صاحب نے لکھا کہ مجھے کام آزادانہ طور پر کرنے نہیں دیا جا رہا ۔لیکن وقت کے ساتھ اندر کی خبریں جب آنا شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ دونوں سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔

تانیہ صاحبہ کو جہانگیر ترین کا ریفرنس مہنگا پڑ اگیااور ان کی کمپنی کو conflicts of interest بتا کر ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ جبکہ میرے ذرائع کے مطابق ان کو صرف جہانگیر ترین کے ساتھ جان پہچان کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر ظفر مرزا ایک بھلے انسان ہیں ان سے ایک انتظامی غلطی ہوئی جو انڈیا سے آنے والی ادویات کا قصہ ہے، اس کی تحقیقات شہزاد اکبر کے حوالے کر دی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

شہزاد اکبر نے ڈاکٹرظفر مرزا کو ذمہ دار قرار دیا ویسے ڈاکٹر صاحب کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ صرف ان سے استعفی مانگنے پر اکتفا کیا گیا ، ان کا کیس نیب کو نہیں بھیجا گیا ،کیونکہ اگر یہ نیب کو بھیجا جاتا تو اس میں اور بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آتے جس سے حکومت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ۔ ماضی میں عمران خان اس طرح کے انتظامی معاملات کے فیصلوں کو کرپشن سے تعبیر کرتے رہے ہیں اس لئے میں وزیراعظم پاکستان سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ انڈیا سے منگوائی جانے والی ادویات میں کس کس نے ہاتھ دھوئے اور کہاں کہاں کرپشن ہوئی؟ لیکن میرے خیال میں آپ کواپنے ہی فرمودات یاد نہیں یا پھرحالات کو دیکھتے ہوئے یوٹرن لے کر بڑا لیڈر بننے کی کوشش کی کیونکہ ہمارے بہت سے سینئر صحافی اور اخبار نویس اس اقدام کو خان صاحب کی فتح قرار دیتے ہوئے ان کے سچا اور ایماندار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔


میں اپنے صحافی دوستوں کی بات مان لیتا مگر جنا ب جب ادویات کی قیمتیں بڑھیں اور کوئی پرسان حال نہ ہوا تو حکومت کس کی تھی اور وہ حضرت جن کا اسم گرامی عامر کیانی ہے اسے آپ نے منظر سے ہٹا کر پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا کر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ کہیں تحقیقات نہ کروانے کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس کی تحقیقات کی گئیں تو اس کا کھُرا بنی گالہ تک آئے گاکیونکہ ادویات مہنگی ہونے کا فائدہ جسے ہوا وہ کمپنی وزیراعظم عمران خان کے کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی کی ملکیت ہے جو شوکت خانم کے سیٹ اپ بننے سے لے کرپاکستان تحریک انصاف بننے تک اور پھر سیاسی جدوجہد سے اقتدار کے ایوانوں تک آپ کے ساتھ ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے توصرف ادویات منگوانے کی اجازت دی تھی باقی کام تو نیچے نیچے کیا گیا۔ اس میں باقی منسٹریز کہاں گئیں۔ منسٹری آف کامرس وغیرہ کا نام کیوں گول کر دیا گیا۔ یہ عمران خان صاحب یا ان کے شہزاد اکبر صاحب بتا دیں یا پھر وہ دانشور جو کہ خان صاحب کے اعلیٰ ظرف اور ایمانداری کی دہائیاں دیتے پھرتے ہیں۔
میرے زرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں استعفوں کی فہرست مین ندیم افضل چن اور ندیم بابر شامل ہیں۔

ندیم افضل چن تو ایک سیاسی ورکر ہیں جو اس وقت ملک سے باہر ہیں۔ مگر وہ جانے سے پہلے خان صاحب کو اپنا استعفیٰ پیش کر گئے تھے ان کے مطابق وہ اپنے حلقے کو وقت نہیں دے پا رہے اور اس وجہ سے ان کے ووٹر ان کے سپورٹرز ان سے خفا ہیں، اس پر عمران خان صاحب نے کہا کہ آپ ابھی رخصت پر جائیں جب واپس آئیں گے تو اسے دیکھیں گے۔لیکن شاید اب وہ استعفی قبول کر لیا جائے گا۔

مگر میری اطلاع کے مطابق جو دوسرا استعفیٰ ہے ندیم بابر والا وہ تھوڑا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اب اس کی وجہ ہے جناب ندیم بابر صاحب پاکستان میں شوکت خانم کے بڑے ڈونرز میں شامل ہیں۔ جو پاکستان میں شوکت خانم کے تین ہسپتالوں کو سالانہ مجموعی چھ کروڑ روپے دیتے ہیں اور یہ ان کی وہ رقم ہے جو کہ خیرات کی مد میں ظاہر شدہ ہے۔ تو ان کا گھر جانا تھوڑا مشکل ہے۔


یہ تو چھوٹی قربانیاں تھیں لیکن کچھ بڑی قربانیاں بھی آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملے گیں ، بڑی قربانی میں جو پہلا نام ہے ، وہ ہے حفیظ شیخ، ویسے تو ابھی سیاسی افق پہ ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن جناب میری اطلاعات کے مطابق چیف صاحب نے اس جمعرات سے پچھلی جمعرات کچھ معاشی تجزیہ کاروں سے ملاقات کی اور ملکی معاشی حالات کا جائزہ لیا ، جہاں ان کو بتایا گیا کہ حالات مزید خرابی کی جانب گامزن ہیں اور موجودہ وزیر خزانہ انہیں کنٹرول کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ انھیں اس کی پروا بھی نہیں ہے۔

کیونکہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ ان پر اس ملک کے عوام کا کوئی پریشر نہیں ہے۔ مقتدر حلقوں میں جہاں بہت سے لوگوں کی پرفارمنس پر سوالیہ نشان ہیں(بے شک انہیں وہ خود لا ئے ہیں) وہیں حالات ٹھیک اور سنبھالنے کی فکر بھی ہے، سو پھر کیا تھا حکومتی ایوانوں سے بات کی گئی اور متبادل کا پوچھا گیا تو متبادل کے طور پر ابھی فی الوقت جو نام دیا گیا وہ حماد اظہر کا تھا جس پر دوسری جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

حماد اظہر کا اپنا ایک انتخابی حلقہ ہے جس میں ان کو واپس جانا ہے اور عوام کا سامنا کرنا ہے۔ ان کا معاملات کو ہینڈل کرنے کا انداز حفیظ شیخ جیسی شخصیت سے الگ ہو گا کیونک حفیظ شیخ کا تو نہ مال یہاں پاکستان میں ہے اور نہ ہی اہل و عیال اور نہ ہی ان کوکسی چیز کے کھونے کا ڈر ، حماد اظہر کو کم از کم اپنی ساکھ کا کو تو خیال ہو گا اور وہ فیصلے کچھ ہوشمندی سے تو لیں گے۔

جناب حماد اظہر صاحب اپنے طور پر کوشش بھی کر رہے تھے ،چینی مالکان سے بات چیت کی کہ کسی طور چینی کی قیمت کم کروائی جا سکے بھلے دو سے تین روپے فی کلو کیوں نہ ہو۔۔ مگر یہ نہ ہوا کیونکہ اس مذکرات میں شہزاد اکبر صاحب بھی تھیجو مل مالکان کو قیمت کم کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے تھے ڈرا رہے تھے۔جناب آپس کی بات ہے کہ اس طرح تو چینی کی قیمت کم نہیں ہونی تھی۔


 آپ نے جو مل والوں کے ساتھ کیا ہے اب ان کی باری ہے۔اب جو تخمینہ حکومت کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ چینی کی پروڈکشن تخمینہ سے کم ہے اس لیے سات لاکھ ٹن درآمد کرنا پڑے گی۔ اب اس درآمد میں 45 دن کا وقت درکار ہے پورٹ تک آنے میں۔ اور جب چینی پورٹ تک پہنچے گی اس کی قیمت ہو گی 85 روپے فی کلو سے86 روپے فی کلو کے درمیان ہو گی۔ پھر پورٹ سے تمام ملک میں ٹرانسپورٹ کے ذریعے منتقل کی جائے گی، اسے جب چینی کی کاسٹ میں شامل کیا جائے گا تو قیمت 90 روپے فی کلو تک پہنچ جائے گی۔


 توذرا خود سوچیں کہ امپورٹر کو جب 90 روپے کلو چینی ملے گی تو وہ کس طرح 75 روپے فی کلو عام آدمی کو دے دسکتا ہے۔ یہ تو ایک عام آدمی کو 95 سے 100 روپے فی کلو کے حساب سے ملے گی۔ اب چینی ایک ہی صورت میں سستی ہو سکتی ہے کہ حکومت سبسڈی دے۔ تو جناب پہلے بھی تو آپ نے مذاکرات ناکام ہونے پر کیس نیب کو بھیج رہے ہیں شوگر ملز والوں کا۔ اب پھر آپ سبسڈی دیں گے معذرت کے ساتھ یہ تو وہی بات آ گئی کہ ”گھوم پھر کے کھوتی بوہڑ تھلے“ تو جناب یہ حال ہوتا ہے جب آپ ٹیکنوکریٹ کو مذکراتی کمیٹی میں شامل کرتے ہیں اور وہ بغیر زمینی حقا ئق کیونکہ وہ معاملات کو سنوارتا نہیں بگاڑتا ہے۔


 پی ٹی آئی کی جانب سے دوسری بڑی قربانی ہوگی عثمان بزدار کی۔ دوست پھر کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی پھر عرض کروں گا کہ یہ ایک رات کی بات نہیں۔ اس قربانی کے لیے پاکستان تحریک انصاف خود تیار ہے اور ماحول بنا رہی ہے۔ میرے پڑھنے والوں نے یقینا اینکر پرسن عمران خان کے یوٹیوب پر چھ سے زیادہ پروگرام عثمان بزدار کے خلاف دیکھے ہوں گے اب ان پروگرامز میں وہ جن ڈاکومنٹس اور وزیراعلیٰ ہاوٴس کے جن لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ نام اور ان سے متعلقہ نام یہ نہ تو اشیرباد کے بغیر ہو رہا ہے اور نہ ہی پارٹی کے اندر سے فراہم کی گئی معلومات کے بغیر ہو رہا ہے۔

اور یہ معلومات محترم شہباز گل صاحب باہم پہنچا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شہباز گل صاحب نے ایک یوٹیوبرز کا whatsapp گروپ بھی بنایا ہے جس میں کافی نئے لوگ بلکہ نوآموز لوگ ہیں کیونکہ وہ حکومتی حلقوں کی قربت کے زیادہ مشتاق ہوتے ہیں۔ اس گروپ کے ذریعے معلومات پہنچائی جا رہی ہیں اور ان سے یوٹیوب پر پروگرام کروائے جا رہے ہیں جیسے اینکر پرسن عمران خان سے کرائے گئے۔

میری مزید اطلاعات کے مطابق شہباز گل صاحب ایک یوٹیوبرز ایسوسی ایشن بھی بنا رہے ہیں جس کے صدر جناب صدیق جان صاحب ہوں گے ۔ ابھی تک کی اندرونی اطلاعات کے مطابق ان سب دوست احباب کو ایک اور نوید بھی سنائی گئی ہے کہ آنے والے وقت میں ان یوٹیوبرز کے لیے بجٹ بھی رکھا جائے گا مطلب اشتہارات وغیرہ ویسے یہ اتنا آسان اور نزدیک کا معاملہ نہیں ہے, لیکن ایک امید تو ہے دیکھیں بر آتی ہے کہ نہیں۔


 اس سب میں جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان کا آشیرباد بھی شامل ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عمران خان صاحب کو روحانی طور پر بھی کہا گیا ہے کہ دو ”ع“ ایک عمران خان کا اور عثمان بزدار وزیراعظم کے اقتدار کے دوام کے لیے ضروری ہیں تو جناب ازراہے تفنن یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ”ع“ عمران خان کا اور دوسرا علیم خان کا بھی تو ہو سکتا ہے اگر روحانیت میں خان صاحب کے اقتدار میں رہنے کایہی فارمولا ہے تو۔


جو دوست عمران خان کے اقتدار کے لیے کسی خطرہ کی بات کرتے ہیں میں ان سے اختلاف کرتا ہوں کہ جناب خان صاحب کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں اپوزیشن اس موڈ میں ہے ہی نہیں کہ وہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے کچھ کریں۔ یہ جو اے پی سی کا چکر ہے یہ صرف عوام کو دکھانے کے لیے اور اس مہنگائی کے نتیجے میں عوام کا بڑھتا ہوا پریشر کنٹرول کرنے کے لئے ہے، یہ سب سیاسی ہنگامہ آرائی اس لیے ہو رہی ہے کہ عمران خان صاحب کے طرز حکومت کو عوام کے سامنے مزید عیاں کرنا ہے اور یہ باور کروانا ہے کہ ان کے قابو میں کچھ نہیں اور ٹیکنوکریٹس پر بھروسہ اور ٹیکنوکریٹ سسٹم پر بھروسہ کرنے والوں کو حقیقت حال کا ادراک کرنا ہے کہ مسائل چاہے جیسے بھی ہیں خالصتاً سیاستدان ہی اِن کا حل نکال سکتے ہیں۔

کیونکہ وہ جیسے تیسے بھی ہیں عوام کو جوابدہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :