پانی زندگی ہے

جمعہ 30 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

پانی زندگی ہے ۔ لیکن پاکستان میں پانی کا بحران ہے ۔اور پاکستان میں آہستہ آہستہ پانی ختم ہو رہاہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی جن شہروں ، قصبوں اور دیہات میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ عوام اُسکی قدر نہیں کر رہی بلکہ اُس کو ضائع کر رہی ہے ۔
پاکستان اُن 36 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا بحران ہے ۔ پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔

جیسے شہری علاقوں میں آبادی میں اضافہ ، زراعت ، پانی کے نظام میں بد انتظامی ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور زیرِ زمین پانی کے مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کے فقدان کی وجہ سے میٹھے اور تازہ پانی کے معیار میں بہت کمی آ گئی ہے اور عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے امراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)


فی الحال پاکستان دُنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آ رہی ہے ۔

پاکستان میں اس وقت سالانہ پانی کی دستیابی فی شخص کے لیۓ ایک ہزار مکعب میٹر سے بھی کم ہے ۔ اگر یہ سطح 500 مکعب میٹر تک پہنچ جاتی ہے تو پاکستان 2025 میں ایسا ملک بن جائیگا ۔ جہاں پانی کی قلت پیدا ہو جائیگی ۔ پاکستان میں پانی کے بحران کا اثر لوگوں  میں  پہلے ہی محسوس کیا جا رہا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے 24 بڑے شہروں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کو تازہ اور میٹھے پانی تک رسائی نہیں ہے ۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی کچی آبادیوں میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کو انکے استعمال کے لیۓ پانی دستیاب نہیں ۔
بہت سے لوگ جن کے پاس روزمرہ استعمال کا پانی دستیاب نہیں ۔ وہ ٹینکر یا بورنگ کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے ٹینکر مافیا سرگرم رہتا ہے اور غریب عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ پانی کی قلت اور پانی کی طلب میں اضافہ کے باعث بعض اوقات پانی کا ٹینکر پورے ہفتہ میں صرف ایک ہی بار سپلائی کیا جاتا ہے جسکی قیمت اس دوران دس ہزار روپے فی ٹینکر تک بھی  مانگی جاتی ہے۔

حکومتِ سندھ نے ٹینکر مافیا پر قابو پانے کے لیۓ کچھ اقدامات کئے ہیں جو ناکافی ہیں ۔ کیونکہ ٹینکر مافیا تو اب بھی بے لگام گھوڑے کی طرح غریب عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اُن سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہے۔
پاکستان  دُنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جو 220 ملین سے زائد آبادی پر مشتمل ہے ۔ 2010 میں پاکستان کی آبادی 179.42 ملین تھی ۔ ایک اندازے کے مطابق 2025 تک پاکستان میں پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ  ِفٹ تک ہو سکتی ہے ۔

جبکہ پانی کی دستیابی اور فراہمی 191 ملین ایکڑ  ِفٹ تک ہو سکتی ہے ۔
پاکستان میں عام طور پر اُگنے والی فصلیں پانی پر زیادہ انحصار کرتی ہیں جن میں گندم ، گَنا ، چاول اور کپاس کی فصل شامل ہے اور یہی فصلیں ملک کا 95 فیصد پانی استعمال کرنے کی ذمہ دار ہیں ۔ پاکستان  میں زراعت کے شعبے میں پانی کا ناقص انتظام ، پانی کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے جبکہ  پاکستان کا نظامِ آبپاشی بھی ناکارہ ہے ۔

جس کی وجہ سے 60 فیصد پانی کا نقصان ہو رہا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک کے مقابلہ میں پاکستان میں پانی کی  پیداوار کم ہے ۔ مزید برآں  پاکستان دوسرے ممالک کی نسبت فصلوں کی کاشت کے لیۓ بھی زیادہ پانی استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کو بارش، برف اور گلیشیئر پگھلنے سے پانی میسر آتا ہے ۔ چونکہ بارش موسمی ہے اور ملک کا 92 فیصد حصہ خُشک ہے ۔ اس لیۓ پاکستان اپنے پانی کی فراہمی کے لیۓ  بارش پر انحصار کرتا ہے ۔


2018 میں موجودہ پاکستانی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ دو ڈیمز ، دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے 14 بلین ڈالر کے منصوبوں کے لیۓ حکومتی سطح پر بناۓ گئے ڈیم  فنڈ میں مالی معاونت فراہم کریں ۔ ڈیمز کی تعمیر کا مقصد زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور ملک کو بجلی کی فراہمی میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیۓ ڈیم فنڈ کے نام پر 9 بلین روپے اکٹھے کئے گئے ۔

جبکہ 13 بلین روپے ڈیم فنڈ کے نام پر چلنے والے اشتہارات پر خرچ کر دیئے گئے ۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کا دعوہٰ تھا کہ اوورسیز پاکستانی اس ڈیم فنڈ میں 200 بلین روپے ڈالیں گے ۔ لیکن صرف اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے 1.25 بلین روپے ہی اکٹھے ہوسکے۔
حکومتِ پاکستان کو پانی کے بحران کو کم کرنے کے لیۓ کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اکیڈمی آف سائینسز نے کہا ہے کہ ملک کو اپنے آبی ذخائر کو وسعت دینے، پانی کے ضیاع کو کم کرنے ، پانی کی پیداوار کو بہتر بنانے  اور ایک ایسا فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

جس سے زمین کی سطح اور زیرِ زمین پانی کے نظام کی بہتری میں مدد ملے ۔ حکومتِ پاکستان اس حوالے سے اقدامات تو کر رہی ہے ۔ لیکن مسقتبل کی صورتحال کو بھانپتے ہوۓ یہ اقدامات ناکافی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :