منفی سیاسی روایات

پیر 17 مئی 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

آج کل سیاست کے میدان کے کھلاڑی جب کسی قانونی گرفت میں آتے ہیں تو شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ ملک میں جمہوری اور سیاسی روایات کو مجروح کیا جارہا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ روایات ان مثبت باتوں یا رسوم کو کہتے ہیں جو ایک عرصے سے راٸج ہوں اور جن پر عمل ہورہا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی روایات کچھ ایسی مثبت نہیں ہیں کہ جن پر فخر کیا جاسکے۔

بلکہ شروع سے ہی ہماری سیاست میں مفاد پرستی اور ذاتی منفعت کے عناصر نظر آتے ہیں۔ ان بیماریوں نے ماضی میں بھی ہمیں نقصان پہنچایا اور آج بھی نقصان ہی پہنچا رہی ہیں۔
برصغیر کی تاریخ کی کتب میں سے اکثر میں ہمیں بلوچستان کے شاہی جرگے کا زکرملتا ہے۔ یہ انگریز کا بنایا ہوا جرگہ  تھا جس کا صدر ایجنٹ ٹو گورنر جنرل آف برٹش انڈیا ہوتا تھا اور عام طور پر انگریز کا وفادار سمجھا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے وقت کچھ علاقوں میں  عوامی ریفرینڈم کروانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دی۔ لیکن  بلوچستان میں عوامی ریفرنڈم کی بجائے انگریز کے بناے گیے شاہی جرگے کے اکثریتی ووٹ کی بنا پر فیصلہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ انگریز کو یقین تھا کہ جرگہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں کرے گا اور یہ بات انگریز کے آیندہ کے پلان کے لیے سود مند تھی۔

اس ساری مہم میں کاکڑ اور جمالی قبایل کے رہنماوں نے پاکستان سے الحاق اور عبدالصمد اچکزی اپنے حامیوں کے ساتھ پاکستان سے الحاق کے مخالف کے طور پر سرگرم رہے۔ بعض مورخین کے نزدیک اس وقت بلوچستان مسلم لیگ کے صدر بھی اپنے مفاد کے پیش نظر درپردہ مخالفین کا ساتھ دیتے رہے۔ تاہم کاکڑ اور جمالی قبایل کی کوششیں رنگ لایں اور بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا۔

  لیکن تاریخ میں یہ ثبت ہوگیا کہ اس زمانے میں بھی ذاتی منفعت کی خاطر سیاست ک چالیں چلی جاتی تھیں۔  ذاتی مفاد کی  سیاست ہمیں اس زمانے میں بھی دکھای دیتی ہے جب مسلمانان ہند قاید اعظم کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ جہاں اس وقت بچہ بچہ ” لے کہ رہیں گے آزادی“  کے نعرے لگا رہا تھا وہیں بہت سے عناصر ایسے بھی تھے جو اپنے مفاد کی لالچ میں اندھے ہو کر دشمن کی گود میں بیٹھ کر ان کی چالیں چل رہے تھے۔

یہی وہ لوگ تھے جن کو قاید اعظم اپنی جیب کے کھوٹے سکے کہتے تھے۔
سیاست کے کھلاڑیوں نے آزادی کے بعد بھی ایسے ہی نرالے رنگ ڈھنگ اپناے رکھے۔ اور آج بھی یہاں ”سیاست اپنی اپنی“ کا قانون چلتا ہے۔ ایسی سیاست وہ ہوتی ہے جس میں ہر شخص اپنے فایدے کے لیے سیاست کررہا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک کوی بھی دور ایسا نظر نہیں آتا جس میں ہمیں سیاست  براے ملک و قوم ہوتی دکھای دیتی ہو۔

آج تک جو بھی حکمران آیا اس نے سیاست براے ذات کے اصول کو ہی فوقیت دی۔ کسی نے ذاتی مفاد کی خاطر ملک توڑ دیا تو کوی دشمن کے ساتھ ذاتی اور کاروباری تعلقات استوار کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میدان کے پرانے کھلاڑی ککھ پتی سے اربوں پتی ہو گیے اور ملک یا عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گٸی۔ سیاست براے ذاتی مفاد کی پالیسی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے منشور صرف خوبصورت الفاظ کا پلندہ ہو کررہ گیے ہیں اور لیڈران کے بیانیے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

جہاں ان کو اہنے مفاد پر ٹھیس پڑتی دکھای دیتی ہے وہیں وہ پٹڑی تبدیل کردیتے ہیں۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ملک میں سیاسی اتحادوں کا بننا اور ٹوٹنا ہے۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ کسی ایک نقطے کو بنیاد بنا کر سیاسی اتحاد وجود میں آ تو جاتے ہیں لیکن چونکہ ان میں شامل جماعتوں کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں یہ بکھر جاتے ہیں۔


ملک میں راٸج اس منفی سیاست نے ہمیں لا تعداد تحفے دیے۔ جن میں چند ایسی سیاسی جماعتیں بھی پیدا ہویں جنہوں نے آگے چل کر ایک مافیا کی شکل اختیار کر لی۔ اور اس مقام پر پہنچ کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے حکومتوں کو بلیک میل کرنا شروع کردیا ۔ اس کے علاوہ اس منفی سیاست کو فروغ دینے کے لیے ان جماعتوں کے کرتا دھرتاوں نے مختلف شعبوں میں اپنے زرخرید غلام بھی اکٹھے کر لیے جو وقت آنے پر ان کی ہریشانیوں اور مصیبتوں میں حق نمک ادا کرتے ہوے انہیں اس طرح نکال لے جاتے ہیں جیسے مکھن سے بال نکلتا ہے۔

  اس قسم کے مافیاز چاہے حکومت کا حصہ رہے ہوں یا حکومت مخالف گروہ کا ان کے پیش نظر ہمیشہ اپنا مفاد ہی رہا۔ اور اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کی خاطر انہوں نے اداروں کے تقدس۔ امن و عامہ اور یہاں تک کہ ملک کی سالمیت کو بھی کبھی  کوی اہمیت نہیں دی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کے ان چند مفاد پرست سیاستدانوں کی دوسری اور کچھ کی تیسری نسلیں بھی اسی میدان میں کود پڑیں جو آج بھی سرگرم ہیں۔

اور اپنے آبا کے ہی نقش قدم پہ چل رہی ہیں۔ انہی نام نہاد سیاسی رہنماوں نے آج نہ تو اداروں کے تقدس کو مقدم جانا اور نہ ہی سیاسی ایوانوں کی توقیر کا خیال رکھا۔ اسی لیے آپ انہیں کبھی تو جلسے جلوسوں میں قومی اداروں اور قومی زبان کے خلاف زہر اگلتے سنتے ہیں اور کبھی یہ ایوانوں میں مچھلی منڈی جیسا منظر پیش کرتےنظر آتے ہیں۔  ان کی ذاتی مفادات کے حصول کی جنگ میں نقصان ملک اور قوم کا ہورہا ہے۔

کیونکہ  اس جانب کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ ذاتی منفعت کی سیاست کرنے والوں کی ریشہ دوانیاں ۔ سازشیں اور ملک دشمن بیانیے اندرونی خلفشار کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون و انصاف کی بھی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔
مندرجہ بالا صورتحال کو فروغ اس لیے مل رہا ہے کہ وہی دشمن جس نے 1947  میں بلوچستان کو پاکستان کا حصہ نہ بننے کے لیے 18 کروڑ روپےنقد اور 4 کروڑ روپے سالانہ کے سپورٹ فنڈ کی ہڈی ڈال کر اس زمانے کے مفاد پرستوں کو خریدنے کی کوشش کی تھی وہی دشمن آج انہی قیام پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی نسلوں پر ، جو وطن عزیز میں بیٹھے آستین کے سانپوں کی حیثیت رکھتے ہیں،  کروڑوں اربوں خرچ کر کے وطن عزیز کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی تگ دو میں سرگرم ہے۔

ففتھ جنریشن وارفیٸر کے عروج کے زمانے میں دشمن باہر سے تو حملہ آور ہو ہی رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اندرون ملک اس کے نمک خوار اس سے زیادہ جوش میں ہیں۔ اور اب ان میں سیاسی حلقوں کے علاوہ چند ایک دوسرے شعبوں سے متعلق لوگوں کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ جو اپنے مفادات پر ضرب پڑتی دیکھ کر ہر طرح کی ہرزہ سرای شروع کردیتے ہیں۔ ایسے میں دشمن ان کو آلہ کاربنا کر اپنا مقصد حاصل کررہا ہے۔

ان ایجنٹوں کے ذریعے جھوٹے پروپگنڈے اور الزام تراشی کا کھیل کھیل کر افرا تفری اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پھیلایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے قومی اتحاد پارہ پارہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کی کامیابی کی دوسری وجہ  یہ ہےکہ ہمارے عوام زود فراموش بھی ہیں اور سیاسی نابالغ بھی۔  میڈیا کے ذریعے سیاسی شعور سے نابلد عوام کے ناپختہ ذہنوں کو پراگندہ کر کے دشمن اپنے بیانیے کے حمایتی پیدا کررہا ہے۔

اور ہمارے عوام میں سے اکثر ایسے ہیں جو ان سب کے منفی اثرات قبول کر کےان کے بیانیے کو ہوا دے رہے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف تو حکومتی ادارے اپنی  اس مشینری کوحرکت دیں جو ان عناصر کے ماضی اور حال کی کرتوتوں کو ثبوتوں کے ساتھ طشت ازبام کرے تاکہ عوام بھی اپنے دشموں کی پہچان کرسکیں۔ دوسرے نمبر پر عوام کو بھی اصل حقایق جان کر ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ان عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ ملکی مفاد میں ہی عوام کا مفاد ہے۔ ہم سب کو چوروں کے اس ٹولے کی پہچان کرنی چاہیے جن کو سیاسی چور کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ عام چور تو صرف آپ کا مال۔ دولت وغیرہ چوری کرتے ہیں لیکن سیاسی چور آپ کا مستقبل۔ آپ کے خواب۔ آپ کی ترقی۔ آپ کے بچوں کی تعلم۔ یہاں تک کہ آپ کی مسکراہٹیں بھی چھین لیتے ہیں۔ اس لیے سیاسی چوروں سے بچنے کی خاطر ان کی پہچان بہت ضروری ہے کیونکہ عام چور واردات کے لیے آپ کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ سیاسی چوروں کا انتخاب اپنی لا علمی کی وجہ سے آپ خود کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :