گدھے کی فکر کرنا چھوڑدیں !

بدھ 30 جون 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔
ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا: ہم نے ملک کے مسائل حل کرنے کیلیئے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے ۔۔۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔

راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا: وہ تو ٹھیک ہے مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟ دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا: دیکھا رحیمے: میں نہیں کہتا تھا کہ یہ قوم اپنے بارے کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو گدھے کی ہی فکر ہو گی...
واقعی ہمارا کچھ عجیب سا حال ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

اصل مسایل کی طرف کوی توجہ نہیں دیتا اور چھوٹی چھوٹی لغو باتیں پکڑ کہ ان پر وقت ضایع کرتے رہتے ہیں۔

ہم ایوانوں میں ہوں، ٹی وی ٹاک شوز میں ہوں یا نجی محفلوں میں۔ ہمارا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اب وزیر اعظم کے غیر ملکی چینل کو دیے گیے حالیہ انٹرویو کوہی لیجیے۔ اس انٹرویو میں جو کچھ پوچھا اور کہا گیا اس کی گہرای میں کوی نہیں گیا بلکہ عورتوں کے لباس جیسی بات کو پکڑ کر واویلا مچا دیا۔ حالانکہ مفتی اعظم پاکستان کی وزیراعظم کے بیان کی تاٸید کے بعد کسی کو کوی شبہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔

لیکن ٹی وی سے مختلف چینلز پر بیٹھ کر خود کو ارسطو سمجھنے والے چند اینکروں نے اس بات پر کیے یروگراموں میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے نمایندوں کو بھڑکا کر خوب ریٹنگ بڑھای کیونکہ ان۔کا مقصد یہی تھا۔ لیکن اس سے سواے وقت کے ضیاع کے حاصل کچھ نہ ہوا۔ ہم میں سے کسی نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ کلام اللہ میں سورہ نور کے علاوہ اور کٸی مقامات پر عورتوں کو نامحرموں سے اپنی زینت کو چھپا کہ رکھنے کے  واضح احکامات کا مقصد معاشرے میں عریانی و فحاشی کی روک تھام ہی ہے۔

اور تمام مخلوقات کے خالق نے جو اپنی مخلوقات کی عادات و اطوار اور جبلت سے بخوبی واقف ہے، انسان جیسی مخلوق کو سیدھی راہ پہ رکھنے کے لیے ہر معاملے کے لیے قواعد و ضوابط مقرر کر دیے ہیں۔ ہم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ شیطان انسان کو مختلف ترغیبات میں الجھا کر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ اور اس کے حملوں کو ناکام بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم کے بیان کو بھی ہم نے اپنی الٹی سیدھی آرا کے غبار میں گرد آلود کردیا۔

کیونکہ ہم ذہنی طور پر اپنی اصلاح کے قایل نہیں۔
ہمارا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہر معاملے میں صرف وقت گزارنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ تزکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا نے جہاں ہمارے عوام کے شعور میں اضافہ کیا ہے وہیں بے بنیاد پروپگنڈے کو بھی فروغ دیا ہے۔ جس کا فایدہ اٹھا کر منفی سوچ کے حامل عناصر اپنے مزموم مقاصد کے لیے عوام کے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیتے ہیں کہ وہ  سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔

ایسے عناصر کا بنیادی مقصد ملک میں انتشار کی فضا کو پروان چڑھانا ہوتا ہے تا کہ اس کی آڑ میں وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ حیرت انگیز طور پر ماضی میں اپنے ادوار اقتدار میں ہر قسم کی لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے وہ سیاستدان جو آے دن مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں وہ بھی آج اخلاقیات۔ مزہبی تعلیمات اور ایمانداری پہ لیکچر جھاڑتے دکھای دیتے ہیں۔

لیکن کوی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔
وقت گزاری کے لیے ہمارے پاس چند مخصوص موضوعات ہیں جیسے ہر دور کی موجودہ حکومت کے ہر کام ہر تنقید براے تنقید۔ اداروں اور اداروں کے  اہلکاروں پر الزام تراشی۔ گزشتہ حکومتوں کی بے جا توصیف۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور خاص بات یہ ہے کہ ان موضوعات پر بحث کرنے کے بعد کوی قابل عمل حل پیش نہیں کیا جاتا۔ اس کام میں حکومتی اہلکار۔

حزب اختلاف کے نمایندے۔ میڈیا کے کھلاڑی اور عوام الناس سب ایک جیسے ہیں۔ اپنے ایوانوں پر نظر ڈالیے تو ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کا عظیم مقصد لے کر ایوانوں میں آنے والے کوی تعمیری کام کرنے کی بجاے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور گالم گلوچ کی زبان میں گلی محلوں کے لونڈوں کی طرح جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ رویہ آج کا نہیں ہے۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

اسی لیے ہم آج تک نہ تو بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کر سکے اور نہ ہی عوام الناس کی حالت بہتر بناسکے۔
میڈیا کی ترقی کے اس دور میں ایک جانب تو عوام کو اہنے خیالات کے اظہار کا موقع مل رہا ہے لیکن دوسری جانب عجیب سے رحجانات بنتے نظر آتے ہیں۔ جیسے حکومت یا حزب مخالف کی کسی اچھی بات کی تعریف کرنے والے کے خیالات کی گہرای میں جانے کی بجاے مخالفت براے مخالفت کے جزبے کے زیر اثر مختلف قسم کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

اور اگر کوی کسی معاشرتی خرابی کے سدھار کے لیے مشورہ دے دے تو اسے emotional blackmailing  کا نام دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔
دراصل ہم میں تنقید براے تنقید کا رحجان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اندر کا غبار نکالنے کے علاوہ کسی تعمیری کام کی جانب قدم اٹھانے کا سوچتے ہی نہیں۔ اعتراضات ہماری زبان کی نوک پہ دھرے رہتے ہیں۔ اور ہم موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کہاں کون سا اعتراض فٹ کر دیں۔

ایسا ہی کچھ حال ہم گزشتہ ستر سالوں سے حکومتوں کا کررہے ہیں۔ ہمیں کسی بھی زمانے کی حکومت پسند نہیں آتی۔ اور اس کے جانے کے بعد اس کی یاد بہت ستاتی ہے۔
ہم میں دوسری قوموں کی طرح خود کو سنوارنے کا جزبہ انگڑای بھی نہیں لیتا۔ جھوٹ۔ کرپشن۔ رشوت خوری۔ عہدے کا غلط استعمال۔ سفارش۔ اقربا پروری۔ سرکاری مال میں غبن۔ سرکاری مراعات کا ناجاٸز استعمال۔

خورد برد۔ کم تولنا۔ ذخیرہ اندوزی۔ چور بازاری۔ ملاوٹ۔ دھوکہ بازی۔ حق تلفی۔ ناجایز قبضے۔ بلیک میلنگ۔ دھونس جما کر کام نکالنا۔ بے ایمانی۔ چوری۔ ڈاکہ۔ لوٹ مار۔اخلاقی و معاشرتی برایوں کا سرعام ارتکاب کرنا۔ قانون شکنی۔ ناجاٸز اور غیر قانونی طریقوں سے کام نکلوانا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جراٸم  پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ارتکاب نہ صرف ہمارے عوام کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے بلکہ ہماری حکومتوں اور اداروں کے نماٸندوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کی مرتکب ہوتی ہے۔

ہماری ایک بہت بڑی تعداد اس موقع کی تاک میں ہوتی ہے کہ کہاں کوی داو لگے اور ہم اس موقع سے زاتی فایدہ اٹھایں۔
مندرجہ بالا تمام خرابیوں کو اس گدھے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ جس کے متعلق ہم پریشان ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کی فلاح اور ترقی کے لیے کوی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔  اگر ہم بحیثیت قوم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قومی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور ہم میں سے ہر شخص کو قومی مفاد کے لیے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :