وزارت خزانہ یا پل صراط

منگل 6 اپریل 2021

Mian Habib

میاں حبیب

ایک مولوی صاحب جانگلیوں کو واعظ کر رہے تھے پل صراط انسان کے سر کے بال سے بھی باریک اور تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہو گا ہر بندے کو اس کے اوپر سے گزر کر جانا پڑے گا جس پر ایک جانگلی اٹھا اور اس نے کہا مولوی صاحب سیدھی طرح کہیں اس کے اوپر سے کوئی نہیں گزر سکے گا(بے شک وہی گزر سکیں گے جن کے اعمال اچھے ہوں گے ) پاکستان کی وزارت خزانہ بھی پل صراط جیسی ہے بڑے بڑے نامی گرامی معیشت کے سقراط اس میدان میں اپنے داو پیج آزما چکے ہیں لیکن نہ معاشی بیماری کی صیح تشخیص ہو پا رہی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی علاج کارگر ثابت ہو پا رہا ہے- صیح جانیں تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی پرفیکٹ آدمی نہیں جس نے اس میدان میں کوئی کام کیا ہو ہر دور میں ہم مانگے تانگے کے وزیر خزانہ سے کام چلاتے رہے ہیں کبھی کسی اکاؤنٹنٹ کو لا بٹھایا تو کبھی کسی بینکر کی خدمات مستعار لے لیں کبھی غیروں کی فرمائش پر کہ یہ بندہ آپ کو بحران سے نکال سکتا ہے اس کی خدمات حاصل کر لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں وسیع پیمانے پر تمام سٹیک ہولڈروں کی مشاورت کے بعد کوئی حکمت عملی طے کی جانی چاہیے اور وہ طویل مدتی حکمت عملی ہو جس میں کوئی بھی حکومت ردوبدل نہ کر سکے- تمام لوگوں کی مشاورت سے قومی معاشی پالیسی تشکیل دی جائے لیکن کیا کریں کہ ہمارا ہر کام ڈنگ ٹپاو ہوتا ہے پلاننگ نام کی چیز سے شاید ہمیں چڑ ہے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس نہ کوئی ہوم ورک ہے اور نہ ہی کوئی پرفیکٹ وزیر خزانہ ہے سیاسی جماعتوں میں مختلف شعبوں کے ماہرین ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں چاپلوس ہوتے ہیں جو اپنی چاپلوسی سے سوچوں پر پہرے بٹھا دیتے ہیں- سیاسی جماعتوں کو ٹیکنوکریٹس کو پارلیمنٹ میں انڈیکٹ کروانا چاہیے یہ ایک وسیع موضوع ہے کہ ہمارے انتخابی نظام کو علاقائی مافیاز نے کس طرح ہائی جیک کیا ہوا ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے موجودہ حکومت نے آج کل پھر ازسر نو اپنی صف بندی شروع کر رکھی ہے- وزیر اعظم مختلف شعبوں میں تبدیلیاں لا کر کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں اہم وزارتوں میں ردوبدل کیا جا رہا ہے خزانہ کے بعد اطلاعات کی وزارت سمیت متعدد وزارتوں کے وزیر تبدیل کیے جا رہے ہیں لیکن وزارت خزانہ کے حوالے سے دو نامی گرامی کھلاڑیوں کے بعد ایک تازہ دم کم عمر کم تجربہ کار کھلاڑی کو میدان میں اتارا گیا ہے لیکن یہ کھلاڑی حقیقتوں کا ادراک رکھتا ہے عام لوگوں کے مسائل کو سمجھتا ہے- وزیر اعظم نے اس کھلاڑی کی جو بھی ذمہ داری لگائی اس نے انتہائی جانفشانی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا وہ احسن طریقے سے بجٹ بھی پیش کر چکے ہیں اور بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا معاشی کیس بھی پیش کر چکے ہیں ان میں منجھے ہوئے کھلاڑیوں سے زیادہ سنجیدگی اور کام کرنے کا جذبہ ہے پھر اللہ تعالٰی جس سے جو کام لینا چاہیں شاید یہ آزمائش حماد اظہر کو نکھارنے کا موقع ہو حماد اظہر میں چند خوبیاں ایسی ہیں جو ان کو ثابت قدم رکھنے میں مدد دیتی ہیں ان کا خاندان مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ان کے والد میاں اظہر گورنر پنجاب، لارڈ منیر لاہور اور اہم عہدوں پر تعینات رہے لیکن ان کے بدترین دشمن بھی ان پر کرپشن یا ناجائز کاموں کے حوالے سے انگلی نہیں اٹھا سکتے -دوسرا اصولوں کی پاسداری ان کی گھٹی میں شامل ہے ان کے والد میاں اظہر نے میاں نواز شریف سے اس وقت اختلاف کیا جب وہ دو تہائی اکثریت کے وزیر اعظم تھے لہذا حماد اظہر سے نہ تو کسی ناجائز کام کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن یا کسی کو ناجائز فائدہ پہنچانے کا سوچا جا سکتا ہے ایسے بااصول لوگوں کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے -وزیر اعظم نے حماد اظہر پر مکمل اعتماد کے ساتھ پہلی بار انھیں مکمل با اختیار وزیر بنایا ہے انھوں نے حماد اظہر کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا وائس چیئرمین بھی بنا دیا ہے جس کے بعد وہ تمام افواہیں دم توڑ گئی ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ معاون یا مشیر لگائے جا رہے اور انھیں شاید کھل کر کام کرنے موقع نہ مل سکے- وزیر اعظم عمران خان نے اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو کی ہے جس کے مطابق وہ خود چیرمین ہوں گے جبکہ حماد اظہر وائس چیئرمین ہوں گے اور ان کی غیر موجودگی میں تمام اجلاسوں کی صدارت حماد اظہر کریں گے اس مشاورتی کونسل میں توانائی، منصوبہ بندی، فوڈ اینڈ سیکیورٹی اور اقتصادی امور کے وزراء شامل ہوں گے اس میں 12 سرکاری ارکان اور13 غیر سرکاری ارکان شامل ہوں گے نجی شعبہ سے شوکت ترین، سلمان شاہ، ڈاکٹر شمشاد اختر، عابد سلہری،عارف حبیب، آصف قریشی، اعجاز نبی،فاروق رحمت اللہ، محمد علی ٹبہ، ڈاکٹر راشد امجد، سلطان آلانہ، محمد سلیم رضا، اور زید علی محمد جیسے تجربہ کار لوگوں کو لیا گیا ہے- اب حماد اظہر کے پاس اپنی صلاحیتیں دیکھانے کا بہترین موقع ہے اور ان کا یہ امتحان بھی ہے اللہ نے جس سے جتنا بڑا کام لینا ہوتا ہے اسے اتنے بڑے امتحان سے گزارتا ہے حماد اظہر کو سب سے بڑی جنگ مہنگائی کی جنگ کا سامنا ہے عوام اس مہنگائی سے بہت تنگ ہیں اگر حماد اظہر کسی حد تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ نہ صرف عوامی ہیرو ہوں گے بلکہ اپنی جماعت کو بھی سرخرو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس کے علاوہ انھیں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکالنا جمود کا شکار معیشت کو ٹریک پر لانا بین الاقوامی اداروں کا پاکستان کی معیشت میں عمل دخل کو کم کرنے کے بڑے امتحان کا سامنا بھی ہے اللہ تعالٰی انھیں سرخرو کرے یقینی طور پر اتنی بھاری ذمہ داریوں کے بعد ان کے پاس وقت بہت کم ہو گا لیکن میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب کو بھی وقت دیں آخر کار آپ نے دوبارہ ان لوگوں کے پاس ہی آنا ہے اس لیے ان کا اطمینان بھی ضروری ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :