مہنگائی اور سیاست

پیر 8 نومبر 2021

Mian Habib

میاں حبیب

اس وقت تمام بیانیے مانند پڑ چکے ہیں جبکہ مہنگائی کا بیانیہ زور پکڑ رہا ہے مہنگائی کی موجودہ لہر میں حکومت بھی ڈیفینسو نظر آتی ہے اور اپوزیشن چڑھائی کرتی جا رہی ہے اپوزیشن نے مہنگائی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور عوام کی نبض کو چیک کرنے کے لیے پہلے صوبوں کی سطح پر احتجاجی مارچ شروع کیے جا رہے ہیں اگر پذیرائی ملی تو پھر یکجا ہو کر اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا ورنہ کوئی خوبصورت سا موڑ دے کر کوئی اور راہ نکالی جائے گی ایسی ہی کوشش پی ڈی ایم پہلے بھی کر چکی اور آخری جلسہ لاہور میں کیا گیا جس میں یخ بختہ ہواوں نے جذبے سرد کر دیے اور پھر سب لوگوں نے گرم کمروں کا رخ کر کے گرم گرم کافی پینے پر اکتفا کر لیا استعفوں کے مشترکہ آپشن پر اختلافات نے پی ڈی ایم کی مکمل ہوا نکال دی اور پی ڈی ایم اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اب پی ڈی ایم ن لیگ اور مولانا کا رومانس ہے لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں اپنے اپنے طور پر مہنگائی کا چیک کیش کروانے کے لئے تگ ودو کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس ایشو پر شاید ساری جماعتیں اکھٹی ہو جائیں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی راہ نکل آئے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن زیادہ جذباتی ہیں ان کی اور بات ہے لیکن پیپلزپارٹی  فضول کی ایکسرسائز کا حصہ نہیں بنے گی اگر اسے یقین ہو چلا کہ ان کے احتجاج سے تبدیلی لانا مقصود ہے توپھر وہ سب سے آگے ہو گی لیکن اگر انھیں یہ پتہ چلا کہ یہ محض دباو بڑھانے کی گیم ہے تووہ کم ازکم اسلام آباد مارچ کا حصہ نہیں ہو گی لیکن پی ڈی ایم نے موجودہ مجوزہ احتجاجی مرحلہ کا آخری جلسہ پھر لاہور رکھ لیا ہے موسم بھی وہی ہے جس نے پہلے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اگر اس بار بھی لاہوریے گرم لحافوں سے باہر نہ آئے تو پھر کیا ہو گا ہمیں یہ بھی علم ہے کہ احتجاجی تحریکیں کس طرح کامیاب ہوتی ہیں سیاسی ورکروں کو کیسے متحرک کیا جاتا ہے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے اصل سٹیک ہولڈرابھی تک میدان میں نہیں آئے کیونکہ اصل سٹیک ہولڈر اپنی دیہاڑی توڑنے کا رسک نہیں لے سکتے نہ اپنا کام چھوڑ سکتے ہیں لہذا لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی اور بغیر یقین دہانی کے اب سیاسی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا تو ساری ایکسرسائز فضول ہے اس لیے حکومت پر دباو کی حد تک مدہم سروں کی موسیقی جاری رکھی جائے اور پکے راگ الیکشن کے لئے محفوظ کر لیے جائیں بہر حال اس ملک میں اگلے لمحے کا پتہ نہیں جہاں تک مہنگائی اور اس پر سیاست کا تعلق ہے تو مہنگائی ایک جینوئن ایشو ہے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والا ایشو ہے اس پر سودا فروخت کیا جاسکتا ہے بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کو کسی اور طریقے سے قابو نہیں کر پائیں تو انھوں نے معاشی طور پر پاکستان کا بازو مروڑ دیا ہے پاکستان میں اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی اس قدر پیدا ہو چکی ہے کہ صبح جب آپ سو کر اٹھتے ہیں تو اشیاء کی قیمتیں کچھ کی کچھ ہوئی ہوتی ہیں اس غیر یقینی نے افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا اس غیر یقینی کی کیفیت نے غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں ان کی دولتیں ملٹی پلائی ہو رہی ہیں اور جو تنخواہ دار یا غریب لوگ ہیں ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے جو کہ بہت خطرناک ہے کیونکہ جن کے پاس وسائل ہیں ان پر مہنگائی اثر انداز نہیں ہو رہی کیونکہ ان کے وسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے تھے ان کی اب جان لبوں پر آئی ہوئی ہے حکومت کو ان حالات کا ادراک ہے اس لیے حکومت  نے سوا سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے اگر اس پیکج کے ذریعے مستحق لوگوں تک کھانے پینے کی بنیادی اشیاء سستے داموں پہنچنی شروع ہو گئیں تو یقینی طور پر اس سے کسی حد تک اطمینان آئے گا لیکن اگر اس کو بھی دکھاوئے کے طور پر رکھا گیا تو اس حکومت کی سب سے بڑی دشمن مہنگائی ہو گی حکومت ایک طرف توانائی کے بحران کا شکار ہے تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے معاہدے ہمارے پاوں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں ایسے میں حکومت کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے قوم بھی سہولتیں لینے کے لیے بے قرار ہے لیکن قربانی دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں دوسری جانب پاکستان افغانستان کے معاملات میں دھنستا جا رہا ہے افغانستان کے اثرات بری طرح ہمیں متاثر کر رہے ہیں فیصلہ کن طاقتیں ہمیں آزادانہ افغان پالیسی کی ہمیں سزا دینا چاہتی ہیں اور جن کے آسرے پر ہم میدان میں کودے تھے وہ ابھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کا نظارہ کر رہے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :