اس وقت تمام بیانیے مانند پڑ چکے ہیں جبکہ مہنگائی کا بیانیہ زور پکڑ رہا ہے مہنگائی کی موجودہ لہر میں حکومت بھی ڈیفینسو نظر آتی ہے اور اپوزیشن چڑھائی کرتی جا رہی ہے اپوزیشن نے مہنگائی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور عوام کی نبض کو چیک کرنے کے لیے پہلے صوبوں کی سطح پر احتجاجی مارچ شروع کیے جا رہے ہیں اگر پذیرائی ملی تو پھر یکجا ہو کر اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا ورنہ کوئی خوبصورت سا موڑ دے کر کوئی اور راہ نکالی جائے گی ایسی ہی کوشش پی ڈی ایم پہلے بھی کر چکی اور آخری جلسہ لاہور میں کیا گیا جس میں یخ بختہ ہواوں نے جذبے سرد کر دیے اور پھر سب لوگوں نے گرم کمروں کا رخ کر کے گرم گرم کافی پینے پر اکتفا کر لیا استعفوں کے مشترکہ آپشن پر اختلافات نے پی ڈی ایم کی مکمل ہوا نکال دی اور پی ڈی ایم اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اب پی ڈی ایم ن لیگ اور مولانا کا رومانس ہے لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں اپنے اپنے طور پر مہنگائی کا چیک کیش کروانے کے لئے تگ ودو کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس ایشو پر شاید ساری جماعتیں اکھٹی ہو جائیں اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی راہ نکل آئے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن زیادہ جذباتی ہیں ان کی اور بات ہے لیکن پیپلزپارٹی فضول کی ایکسرسائز کا حصہ نہیں بنے گی اگر اسے یقین ہو چلا کہ ان کے احتجاج سے تبدیلی لانا مقصود ہے توپھر وہ سب سے آگے ہو گی لیکن اگر انھیں یہ پتہ چلا کہ یہ محض دباو بڑھانے کی گیم ہے تووہ کم ازکم اسلام آباد مارچ کا حصہ نہیں ہو گی لیکن پی ڈی ایم نے موجودہ مجوزہ احتجاجی مرحلہ کا آخری جلسہ پھر لاہور رکھ لیا ہے موسم بھی وہی ہے جس نے پہلے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اگر اس بار بھی لاہوریے گرم لحافوں سے باہر نہ آئے تو پھر کیا ہو گا ہمیں یہ بھی علم ہے کہ احتجاجی تحریکیں کس طرح کامیاب ہوتی ہیں سیاسی ورکروں کو کیسے متحرک کیا جاتا ہے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے اصل سٹیک ہولڈرابھی تک میدان میں نہیں آئے کیونکہ اصل سٹیک ہولڈر اپنی دیہاڑی توڑنے کا رسک نہیں لے سکتے نہ اپنا کام چھوڑ سکتے ہیں لہذا لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی اور بغیر یقین دہانی کے اب سیاسی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا تو ساری ایکسرسائز فضول ہے اس لیے حکومت پر دباو کی حد تک مدہم سروں کی موسیقی جاری رکھی جائے اور پکے راگ الیکشن کے لئے محفوظ کر لیے جائیں بہر حال اس ملک میں اگلے لمحے کا پتہ نہیں جہاں تک مہنگائی اور اس پر سیاست کا تعلق ہے تو مہنگائی ایک جینوئن ایشو ہے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والا ایشو ہے اس پر سودا فروخت کیا جاسکتا ہے بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کو کسی اور طریقے سے قابو نہیں کر پائیں تو انھوں نے معاشی طور پر پاکستان کا بازو مروڑ دیا ہے پاکستان میں اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی اس قدر پیدا ہو چکی ہے کہ صبح جب آپ سو کر اٹھتے ہیں تو اشیاء کی قیمتیں کچھ کی کچھ ہوئی ہوتی ہیں اس غیر یقینی نے افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا اس غیر یقینی کی کیفیت نے غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں ان کی دولتیں ملٹی پلائی ہو رہی ہیں اور جو تنخواہ دار یا غریب لوگ ہیں ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے جو کہ بہت خطرناک ہے کیونکہ جن کے پاس وسائل ہیں ان پر مہنگائی اثر انداز نہیں ہو رہی کیونکہ ان کے وسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے تھے ان کی اب جان لبوں پر آئی ہوئی ہے حکومت کو ان حالات کا ادراک ہے اس لیے حکومت نے سوا سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے اگر اس پیکج کے ذریعے مستحق لوگوں تک کھانے پینے کی بنیادی اشیاء سستے داموں پہنچنی شروع ہو گئیں تو یقینی طور پر اس سے کسی حد تک اطمینان آئے گا لیکن اگر اس کو بھی دکھاوئے کے طور پر رکھا گیا تو اس حکومت کی سب سے بڑی دشمن مہنگائی ہو گی حکومت ایک طرف توانائی کے بحران کا شکار ہے تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے معاہدے ہمارے پاوں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں ایسے میں حکومت کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے قوم بھی سہولتیں لینے کے لیے بے قرار ہے لیکن قربانی دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں دوسری جانب پاکستان افغانستان کے معاملات میں دھنستا جا رہا ہے افغانستان کے اثرات بری طرح ہمیں متاثر کر رہے ہیں فیصلہ کن طاقتیں ہمیں آزادانہ افغان پالیسی کی ہمیں سزا دینا چاہتی ہیں اور جن کے آسرے پر ہم میدان میں کودے تھے وہ ابھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کا نظارہ کر رہے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔