میں مقروض کیوں۔۔؟

جمعہ 3 مئی 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

میں مقروض کیوں ۔میں ایک آزاد خود مختار اسلامی ریاست میں پیدا ہو ا ہوش سنبھالتے ہی مجھے یہ سننے کو ملا کہ میں ہزاروں لاکھوں کا مقروض ہوں ،ذراشعور پختہ ہوا میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ میں نے نہ ہی کوئی چیز خریدی نہ ہی قسطوں پر حاصل کی نہ ہی میں نے کسی سے کوئی زمین ،پلاٹ یا مکان خریدا اور نہ ہی میں نے کسی بینک سے قرضہ لیا جو میں سمجھتا کہ میں ان پیسوں کی وجہ سے مقروض ہو گیا میں بہت سوچتا رہا اور بہت غور کیا لیکن مجھے کوئی ایسی بات سمجھ نہ آسکی کہ میں مقروض کیوں ہوں لیکن جب بھی میں TV لگاتا ہوں تو اکثر سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان کا ہر فرد ہزاروں لاکھوں کا مقروض ہے اس راکٹ سائنس کو سمجھنے کے لیے میں نے مطالعہ شروع کیا ،تو مجھ پر یہ عیاں ہوا کہ میں واقعی مقروض ہوں ۔

(جاری ہے)

حالنکہ میں نے یہ قرض نہیں لیا لیکن یہ قرضہ میرے سر پڑ گیا ۔حقیقت کچھ یوں کے قیام پاکستان کے وقت ہم ایک آزاد خود مختار قوم تھے اس کے بعد آنے والے زیادہ تر حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں اور اپنی اولادوں کی اعلی تعلیم جو دوسرے ملکوں سے حاصل کررہے تھے اس کے لیے بھاری قرضے حاصل کیے اور پاکستان کومال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا پتہ نہیں ان نام نہاد محب وطن سیاست دانوں کی اولاد وہ کون سی ایسی تعلیم حاصل کررہے تھے جو معصوم عوام پر قرض در قرض بنتاجارہا تھا درحقیقت سیاست دانوں کی اولاد دوسرے ملکوں میں( فلیٹس خریدنے ،آفشور کمپنیاں ،جائیدادیں بنانے، منی لانڈرنگ کرنے اورموج مستی ،عیاشی اور بد تہذیبی سیکھ رہی ہوتی ہے) اور عوام پر قرضوں کی تہہ چڑ رہی ہوتی ہے اسی لیے تو آج ہر طرف اس بات کی دھوم ہے کہ پاکستان کا فلاح سیاست دان نیب حاضر ہو رہا ہے اور فلاح سیاست دان کسی کورٹ کچہری کی طرف رواں دھواں ہے اور صاحب اقتدار آج جو خوشیاں مناتے ہیں دراصل آنے والے وقت میں یہ بھی نیب کو مطلوب ہو اور عدالتیں انھیں بولا رہی ہوگی کیونکہ تبدیلی کا نعرہ اور تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والے بیشتر سیاست دان ان ہی کی روش پر چل رہے ہیں جوعوام کو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں لیکن خود کا رہن سہن طرززندگی اور خوردونوش کے اطوار ان کروڑوں عوام سے مختلف ہیں وہ خود تو شہنشاہ جیسی زندگی گزارتے ہی ہیں پر ان کے اہل خانہ بھی ہر چیزغیر ملکی استعمال کرتے ہیں ان کی سکیورٹی ، فل پروٹوکول، قیمتی گاڑیوں ، ہوائی جہازوں ، بلاو جہ اور ذاتی غیرملکی دورے ، بجلی، گیس، زندگی کی تمام تر ارایشوں کے اخراجات مفلوک الحال عوام کے ٹیکسوں اور ملکی قرضوں سے ہی ادا ہوتے ہیں ان سیاست دانوں یا ان اہل وعیال کے سر میں بھی درد ہو تو ان کا علاج غیر ملکی مہنگے ترین ہسپتالوں اور ڈکٹروں سے کروایا جاتا ہوپھر ہم کیسے نہ مقروض بنے! تو اس طرح پیارے پاکستانیوں مجھ پر بات روز روشن کی طر ح عیاء ہو گئی کہ میں مقروض کیوں ہو ں پاکستانی قرضوں کی داستان تو قیام پاکستان سے ہی شروع ہو گئی تھی صدر ایوب خاں؛ کے دور میں پاکستان پر کل قرضہ تقریباً 170ملین ڈالر تھا جس میں صدر ایوب خاں نے تقریباً 130 ملین ڈالر بیرونی قرضہ ادا کیا بلکہ اس دور میں پاکستان نے دوسرے ممالک کو بھی قرضے دینے شروع کر دیئے تھے جن میں جرمنی جیسا ملک بھی شامل تھا۔

اس کے بعد بھٹو دور شروع ہوا ذوالفقار علی بھٹو کا دور ؛ اس میں جمہوری حکومت نے کل بیرونی قرضہ6341 ملین ڈالر تک پہنچا دیا یوں اس دور میں ملکی تاریخ کے بڑے بڑے قرضے لینے شروع کردیئے ۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ؛ کل بیرونی قرضہ 12912ملین ڈالر اس دور میں 6572ملین ڈالر قرضہ ہے اس گیارہ سالہ دور میں ریکارڈ کام ہوئے جن میں روس جیسی سپر پاور کے خلاف جنگ لڑی،ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی ،ایف سولہ طیارے خریدے اور اسی دور میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے محترمہ بے نظیرشہید، اور میاں محمد نوازشریف کے دورمیں کل بیرونی قرضہ39000ملین ڈالڑتھا لیکن دونوں حکومتوں نے26090ملین ڈالڑقرضہ لیا جنرل پرویزمشرف کا دور؛اس میں 34000ملین ڈالر قرضہ تھا اس دور میں بھی ریکارڈ قرض 5000ملین ڈالرادا کیا گیا اور مسلسل آٹھ سال حکومت کی گئی اور بے شمار ترقیاتی کام کئے گئے محکمہ پٹرولنگ اور ریسکیو1122سروس اسی دور کا شاہکار ہے آصف علی زرداری کا دور حکومت ؛اس دور میں 48100ملین ڈالر قرضہ تک پہنچا گیا تھا اس حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں 14100ملین ڈالر کا قرضہ لیا میاں محمد نواز شریف کا دور حکومت ؛ اس میں پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 84000ملین ڈالر ہوگیا تھا یعنی 35900ملین ڈالر تباہ کن قرضہ لیا گیا جس نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی اگر موازنہ کیا جائے تو آمرانہ دور میں کل 6772ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا جب کہ 5180ملین ڈالر کا قرضہ ادا بھی کیا گیا یعنی 1592ملین ڈالر قرض لیا گیا دوسری طرف جمہوری حکمرانوں نے پاکستان کو 82402ڈالر کا قرضہ لیا اور اس ملک کو مہنگائی اور قرضہ کے سمندر میں جھونکا آمرانہ اور جمہوری دور کی کارکرداگی عوام کے سامنے ہے جمہوری حکومتی قرضوں میں حجم 23ہزار ارب سے تجاوز کرجانے کے بعد پاکستان کا ہر فرد ایک لاکھ پندرہزار تک کا مقروض ہے ۔

یہ بات بھی قابل غور کہ آئی ایم ایف سے پاکستان اب تک 12مرتبہ قرض لے چکا ہے اور اس میں.2.9جب کہ 25فیصد شیئر امریکہ کا ہے اسی لیے ہر فعل میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتاہے یہ ساری صورت حال جاننے کے بعد میرے نقص العقل میں یہ بات آئی ہے کہ میں واقعی مقروض ہوں لیکن یہ قرض میں نے نہیں لیا ۔۔۔!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :