صادق اور امین حکومت میں میگا کرپشن سکینڈلز

ہفتہ 16 جنوری 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

تحریک انصاف اپنے اپوزیشن کے دنوں میں اس وقت کی حکومتوں کے مبینہ کرپشن سکینڈلز کا بڑے شدومد سے ذکر کرتی رہی ہے عمران خان کی ہر تقریر اپنے مخالف لیڈروں کو چور اور ڈاکو کہنے سے شروع ہوتی تھی اور اسی پر ختم ہوتی تھی۰ عمران خان کا سارا بیانیہ ہی یہ تھا کہ مخالف لیڈروں اور حکومتوں کو چور اور خود کو مسیحا بنا کر پیش کیا جائے جس میں وہ میڈیا اور نادیدہ قوتوں کی مدد سے بڑی حد تک کامیاب بھی رہے. آج جب عمران خان کو مرکزی حکومت سبھالے تقریبا” اڑھائی سال ہونے والے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی تحریک انصاف پچھلے سات سال سے برسرِ اقتدار ہے. اِس عرصے کے دوران کئی میگا سکینڈل سامنے آئے جن میں بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ پشاور یعنی بی آر ٹی، مالم جبہ کیس، بلین ٹری پراجیکٹ اور آٹے، چینی ، ادویات،براڈ شیٹ سے کمیشن لینے کا سکینڈل جیسے میگا کرپشن سکینڈل شامل ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی سامنے آیا. آج صورتحال یہ ہے کہ ان میگا کرپشن سکیبڈلز کے سامنے آنے کے باوجود اِن سکینڈلز میں شامل کِسی ایک بھی شخص کو احتساب کے نام پر کبھی ایک نوٹس بھی جاری نہ ہو سکا. بلکہ ان میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث افراد کو پہلے سے بھی بڑے عہدوں سے نواز دیا گیا۔

(جاری ہے)


پاکستانی سیاست میں تو انوکھے کام ہوتے ہی ہیں تاہم بین الاقوامی سیاست کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ اسی طرح پاکستان میں تو کرپشن اور رشوت کا ایک رواج ہے تاہم پاکستانی اسی رواج کو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی عام کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ حال ہی میں 13 برس بعد براڈ شیٹ کے سربراہ کاوی موساوی نے دعوی کیا ہے کہ انجم ڈار نامی شخص جو خود کو نواز شریف کا بھتیجا کہتا تھا ( جس کے متعلق کاوے موساوی حلفاً نہیں کہہ سکتے) اور اس کے پاس اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی تصاویر بھی موجودتھیں،اس نے براڈشیٹ کیس کی تحقیقات رکوانے کیلئے 25ملین ڈالر کی آفر کی۔

دوسری جانب 31 دسمبر کو پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کو 7۔28 ملین پاؤنڈ یعنی 4 ارب 58 کروڑ روپے ادا کردیے۔ اب اگر ان دونوں خبروں کا آپس میں تعلق دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے اور پھر نبیل گبول کے اس بیان کے بعد کے لندن میں کسی سے جھوٹ بلوانا ہو تو 100 پاؤنڈ سے کام چل جاتا ہے، کہانی کچھ نہ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔
موساوی کی باتیں بجا ہوں گی تاہم سوال یہ ہے کہ براڈ شیٹ 2017 سے نواز شریف کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے تاہم اگر نواز شریف کے خلاف کچھ ثابت ہوا ہے تو پھر اس کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جارہا؟ اگر کسی نے ان کو رشوت کی آفر کی تھی تو یہ عدالت میں اسکا ذکر کردیتے کہ مجھے خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پرویز مشرف کے دور سے انہی فلیٹس کا ذکر کیا جارہا ہے تاہم تاحال ان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ واضح رہے کہ موساوی نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو اپنے کیس سے نتھی کرنے کے لئے برطانوی عدالت سے درخواست کی تھی اور وہ درخواست مسترد ہوئی کیونکہ عدالت کے مطابق ان دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔جس وقت یہ کیس عدالت میں چل رہا تھا اس وقت موساوی کیوں خاموش رہے ، اس طرح تو حقائق کو چھپا کر وہ پاکستان کے مجرم ٹھہرے ہیں اور مزید برآں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر براڈشیٹ کو کوئی رشوت کی پیشکش ہوئی تھی تو وہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو اس کے بارے میں مطلع نہ کر کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔


یاد رہے کہ نیب کے مشرف دور کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کے ذریعے ایک غیر معروف آف شور کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی کے ساتھ جون 2000 میں ایک خفیہ معاہدہ کیا۔معاہدے کی رو سے براڈ شیٹ کو دو سو کے قریب سیاستدانوں، ریٹائرڈ سول و فوجی حکام اور کاروباری افراد کے کرپشن کے ذریعے بنائے گئے غیر ملکی اثاثوں کا پتا لگانا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ براڈ شیٹ نے 17سالوں میں کتنے بیوروکریٹس، کتنے سیاستدانوں اور کتنے فوجی حکام کے اثاثوں کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں؟ اور اگر معلومات فراہم کی ہیں تو نیب نے ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں‌لیا؟ اور اگر نیب نے ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا تو براڈ شیٹ نے یہ تمام معلومات اس وقت میڈیا کے سامنے کیوں نہیں‌لائیں؟
موساوی کا یہ کہنا کہ نیب آج بھی وہی سب کچھ کر رہی ہے جو ماضی میں کرتی آئی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ یہ کوئی ماضی کی نیب سے مختلف ہے، بالکل درست نہیں۔

اگر وہ واقعتاً تبدیل ہو گئے ہوتے تو اب آ کر عدالت میں یہ کیوں کہتے کہ براڈشیٹ نے انہیں مکمل معلومات فراہم نہیں کی تھیں، اس لئے اسے رقم فراہم نہیں کی تھی۔ ہم نے ہر طرح کی معلومات فراہم کیں لیکن کوئی سنجیدگی سے ان معاملات کو لینے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ نیب کے لوگوں نے تو جا کر خود معلومات ان لوگوں کو فراہم کر دیں جن کے اکاؤنٹس کے بارے میں ہم نے انہیں معلومات فراہم کیں۔


اگر موساوی کی یہ باتیں درست ہیں تو اس سے نیب کی غیرجانبداری پر شدید سوالات اٹھتے ہیں کہ آخر نیب ان لوگوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لینا چاہتی؟ کیا احتساب احتساب کا ڈرامہ صرف عوام کو مصروف رکھنے کے لیے ہے؟ اگر نیب درست ہوگئی ہے تو ماضی کی نسبت اب تک نیب کی کارکردگی کیا رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لندن فلیٹس کی جتنی قیمت بنتی ہے نیب نے اس کا دوگنا براڈ شیٹ کو ادا کر دی ہے؟ کیا یہ رقم عوام کی جیبوں سے نہیں نکلی؟ عوام کو اس احتساب کا کیا فائدہ ہوا ہے؟ اگر نیب نے براڈ شیٹ کی معلومات پر عمل ہی نہیں کرنا تھا تو براڈ شیٹ والا ڈرامہ کیوں کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ نیب جیسے جانبدار اور سیاسی انجینرنگ میں ملوث ادارے اس ملک اور عوام کی جیبوں پر بوجھ ہیں انہیں ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :