ماضی جیسا مستقبل

پیر 26 اکتوبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

سیاسی تجربات کے نتائج تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں‘ بس حالات کے باعث کچھ مختلف نظر آتے ہیں‘70 کی دھائی میں کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ بھٹو کو اپوزیشن کی جانب سے کسی قسم کا کوئی چیلنج دیا جاسکتا ہے‘ باالکل یہی صورت حال مشرف کے لیے تھی اور تیسری بار وزیر اعظم بن کر آئے تو نواز شریف کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا‘ مگر اب یہ تینوں تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں‘ بھٹو لاڈلے تھے‘ اسی لیے ادھے پاکستان کا اقتدار بھی ملا‘ نواز شریف بھی لاڈلے رہے ہیں‘ اسی لیے پنجاب میں ان کی اٹھان ہوئی اور آئی جے آئی جیسے اتحاد کی قیادت بھی انہیں ملی‘ اب بھی کوئی لاڈلہ ہے مگر اپوزیشن اتحاد بھی مد مقابل ہے‘ اس اتحاد کو بھی ماضی جیسے نتائج مل سکتے ہیں‘پی ڈی ایم کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے‘ شیخ رشید احمد کی طرح انہوں نے بھی نے ہمیشہ سورج کی تپش اور چاند کی روشنی دیکھ کر فیصلے کیے‘ جب بھی موسم ابرآلود ہوا‘ وہ خاموش رہے‘ ان کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کی گاڑی چل رہی ہے‘ گاڑی کی رفتار ان کے ہاتھ میں ہے‘ سو یہ انہی کی مرضی کے مطابق ہی چلے گی‘ بھٹو حکومت بھی بہت مضبوط تھی‘ اس کے خلاف بھی ایک اتحاد وجود میں آیا تھا‘ جس نے دو ماہ کے اندر اندر نتائج حاصل کر لیے تھے‘ مشرف بہت طاقت میں تھے مگر عدلیہ بحالی کی تحریک کے سامنے نہ ٹھہر سکے‘ نواز شریف خوش قسمت رہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد قائم تو ہوا مگر تبدیلی کے نتائج نواز شریف کے اپنے ہاتھوں میں رہے‘ ان کے فیصلے ہی انہیں لے ڈوبے‘ پہلی بار اقتدار میں آئے تو طاقت آزمائی‘ مگر اسحاق خان کے آئینی اختیارات کے سامنے ان کی ایک بھی نہ چلی‘ دوسری بار جنرل مشرف کی تبدیلی انہیں لے ڈوبی‘ تیسری بار انہیں موقع ملا‘ کام بھی کیا‘ مگر اعتماد حاصل نہ کرسکے‘ دان لیکس کے بعد پانامہ انہیں لے ڈوبا‘ کہتے ہیں سوچ کر بولنا چاہیے‘ پہلے تولو پھر بولو‘ مگر نواز شریف نادان دوستوں کے مشورے سے اسمبلی میں تقریر کر بیٹھے اور کہا کہ الحمد اللہ‘ سارے ثبوت ہمارے پاس ہیں‘ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ تبدیلی آرہی ہے اور اسے ثبوت نہں چاہیے صرف تبدیلی کے لیے فضا درکار تھی‘ جو انہیں خود ہی نواز شریف نے فراہم کردی‘ نواز شریف اسمبلی میں نہ بولتے‘ ہمت کرکے استعفی دے جاتے‘ تو آج ملک میں ہی ہوتے‘ بہر حال انہوں نے جو سوچا اپنے لیے بہتر ہی سوچا ہوگا‘ وہ کہتے رہے کہ ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے‘ لہذا وہی ہوا جو ہمارے سامنے ہے… کسی بھی جمہوری نظام میں‘ جہاں پارلیمنٹ میں فیصلے ہوتے ہیں‘ وہاں حکومت اپوزیشن کو نظر انداز نہیں کر سکتی‘ خود تحریک انصاف کو اس کا تجربہ ہے کہ اس کے استعفی منظور نہیں کیے گئے تھے‘ جمہوریت میں اپوزیشن کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اس سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں ماضی میں مولانا مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف اپوزیشن تحریک کی قیادت کی تھی آج ان کے صاحب زادے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں مفتی محمود کے سامنے بھٹو تھے‘ جنہیں قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، سینیٹ میں بھی ان کا طوطی بولتا تھا وہ ''اکثریت“ میں تھے ایوب خان سے ٹکر لے کر سیاست میں کودے تھے انہیں بھی بہت زعم تھا مگر قومی اتحاد نے ان کا دماغ درست کردیا تھا …… اب کیا ہو رہا ہے؟ یا کیا ہوگا؟ بھٹو سمجھتے تھے وہ بہت مقبول ہیں‘ انہیں کوئی ڈر خوف نہیں‘ اس لیے قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کردیا‘ پھر کیا‘ تاریخ میں پڑھ لیں کہ وہ سب کچھ اب تاریخ کاحصہ ہے‘ بھٹو بھی حریفوں پر ہنستے تھے‘ انہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر انہی کے ساتھ مزاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا‘ اور شرائط بھی تسلیم کیں‘ پھر بھی مہلت نہیں ملی اور اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے‘ پاکستان قومی اتحاد ان کے منہ زور اقتدارکی کشتی ڈبو گیا‘ مشرف بھی خود کو طاقت سمجھتے تھے‘ اور نواز شریف بھی اسی زعم میں تھے‘ تبدیلی جب آتی ہے تو آجاتی ہے‘ یہ تحریک انصاف والوں نے ہی ہمیں یہ بات سمجھائی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :