
اتحادی ناراض،اپنوں میں اختلاف
بدھ 24 جون 2020

محمد اشعر سعید
تحریک انصاف ماضی میں جن سیاسی جماعتوں کو قاتل اور بھتہ خور جماعتوں کے القابات سے نوازتی تھی بلآخر انہیں کا سہارا لے کر اقتدار میں آنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں نہ 'سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا' تبدیلی سرکار نے اس جملے کی بھرپور پاسداری کی۔ اب وہی بھتہ خور اور قاتل جماعتیں ایوان بالا میں حکومتی بینچوں پر بیٹھی نظر آتی ہیں۔
(جاری ہے)
وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت اتحادی جماعتوں کی مدد سے قائم ہے۔
وزیر اعظم پاکستان ماضی میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ مگر الیکشن جیتنے کے بعد انہیں اپنے اصولوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑا۔حکومتی اتحادیوں میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی این پی مینگل شامل ہیں۔ یہ اتحاد ان سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو پورے کرنے کی یقین دہانی کروانے پر ہوا جس میں جہانگیر خان ترین نے اپنا کردار نبھایا۔ اتحادیوں سے مل کر بنی اس حکومت کو 20 مہینے گزر چکے ہیں۔ اس دورانیہ میں یہ اتحادی ایک ضدی بچہ کی طرح کافی دفعہ حکومت سے ناراض ہوئے مگر ان روٹھے بچوں کو منانے کا ٹاسک جہانگیر ترین کو سونپا جاتا اور وہ کامیاب ہو جاتے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں حکومتی اتحادی بی این پی مینگل نے حکومت سے با ضابطہ علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ حکومت کے ساتھ طے شدہ مطالبات کو پورا نہ کرنے پر کیا۔ اس اعلان کے بعد حکومتی صفوں میں ہلچل ہوئی۔ حکومتی وفد نے بی این پی مینگل کے ساتھ ملاقات کی مگر وہ بے سود ثابت ہوئی۔ اختر مینگل اس سے قبل بھی حکومت سے کافی نالاں نظر آتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت ابھی بھی اپنے اتحادیوں کے منانے اور ان کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ جدھر کرونا وائرس پوری طرح معشیت کو تباہ کر رہا ہے وہیں دوسری طرف اپوزیشن سیاست کر کے اپنی دوکان چمکا رہی ہے۔ حکومت معشیت کو سہارے دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو منانے اور اس نا گہانی آفت سے بیک وقت لڑ رہی ہے۔ کپتان کے نئے پاکستان میں مشکلات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اپوزیشن ہر صورت اس اقتدار کو ختم کرنے کے در پہ ہے۔
کپتان کی مشکلات ابھی کم نہیں ہوئی کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے انٹرویو نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے پارٹی اختلافات کو کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے مطابق پارٹی میں گروپ بندی کی وجہ سے نئے پاکستان میں تبدیلی نہیں آ سکی۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں اسد عمر، جہانگیر خان ترین اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات کا ذکر کیا۔ اس انٹرویو کے بعد سیاسی منظر نامہ میں ایک ہلچل دیکھنے کو ملی۔ حال میں ہونے والے کابینہ اجلاس کے دوران بھی اس بیانیہ پر بات چیت کی گئی جس پر کپتان نے فواد چوہدری کو آئندہ احتیاط کی ہدایت کر دی۔ ان بیانات پر مختلف ردعمل دیکھنے کو ملے۔ فیاض الحسن چوہان نے ان بیانات پر کافی شدید درعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا فواد چوہدری اس سے پہلے بھی کافی دفعہ ایسے غیر سنجیدہ بیانات دے چکے ہیں جو تحریک انصاف کے لیے باعث شرمندگی ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا اس طرح کے بندے سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔
کبھی کبھار سوچتا ہوں کس طرح کے لوگ ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔ خیر سیاسی منظر نامہ کو دیکتے ہوئے بہت سے سوالات ذہین میں جنم لیتے ہیں۔ کیا حکومت اپنے اتحادیوں کو منانے میں کامیاب ہو پائے گئی؟ کیا معاملات صدارتی نظام کے نافذ کی طرف جا رہے ہیں؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنی جماعت کے اندر اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جائے گئی؟ کیا میرا کپتان عوام کے دیے ہوئے اس مینڈیٹ کو پانچ سال تک سنبھال پائے کا؟؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اشعر سعید کے کالمز
-
آخر جنرل رانی تھی کون؟
منگل 1 جون 2021
-
کیا اگلی بار کوئی اور عائشہ؟
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
نئے طریقے کی عید میلادالنبی
بدھ 28 اکتوبر 2020
-
امت مسلمہ کا لیڈر
اتوار 27 ستمبر 2020
-
سفر کربلا اور دور حاضر
اتوار 30 اگست 2020
-
جنت نظیر وادی میں فاشٹ سرکار کی گنڈا گردی کو 1 سال مکمل
بدھ 5 اگست 2020
-
قربانی یا سُنتِ ابراہیمی۔۔۔ ؟
پیر 27 جولائی 2020
-
کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا
پیر 6 جولائی 2020
محمد اشعر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.