”سیاست میں اخلاقی اقدار کا فقدان“

ہفتہ 21 نومبر 2020

Mohammad Bashir

محمد بشیر

پاکستان کا سیاسی ماحول  دن بدن پستی کا شکار ہوتا جا رہا ہے .تعمیری اور بامقصد تنقید کے بجائے بہتان تراشی اور ایک دوسرے کی کردارکشی کرنے میں  فریقین  بڑھ چڑھ کر مصروف ہیں۔جمہوری اور اخلاقی اقدار کی تو کسی کو کوئ پرواہ ہی نہیں ہے۔اس فساد کی اصل جڑ وفاقی حکومت کے غیر منتخب معاونین اور چند ایسے وزرا  ہیں جن کو صرف اپنی نوکری پکی کرنے کی فکر ہے.وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوششوں میں  لگے رہتے ہیں.  ان کے نزدیک اخلاقیات اور شاہستگی کوئ معنی نہیں رکھتی۔

(جاری ہے)

اس کی  بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عوامی سطح پر  جواب دینے کے پابند نہیں ہوتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا کوئ حلقہ انتخاب بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں.عمران خان کے معاونین میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل ہیں جو دہری شہریت رکھتے ہیں.وزیراعظم عمران خان   ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئے ہیں.

ان کو  سیاست میں تہذیب اور شاہستگی کو فروغ دینا چاہئے تھا.گالم گلوچ اور مخالفین کی ذاتیات کو نشانہ بنانے کے بجائے  ایک پڑھے لکھے شخص کی طرع  اعلئ روایات کو فروغ دیتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرسکے. بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب فطری طور پر منتقسم مزاج شخص ہیں.
دوسری طرف اپوزیشن اتحاد احتساب کے نام پر اپنے اراکین کی پکڑ دھکڑ اور دیگر معاملات پر احتجاجی تحریک شروع کرنے پر کمربستہ ہوچکا ہے.لیکن وزیراعظم اپوزیشن سے بات چیت کرنے سے انکاری ہیں .ان کا یہ طرز عمل جمہوری روایات کے منافی ہے.

حکومت وقت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپوزشن کو دیوار سے لگانے کےبجائے اس کے جائز مطالبات اور شکایات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے. اس طرع وہ نہ صرف عوامی مسائل کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر سکتی ہے بلکہ سازگار ماحول کے ذریعے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے میں اسے آسانی ہو سکتی ہے. تعمیری تنقید جمہوریت کا حسن سمجھی جاتی ہے.

ماضی میں 2008 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ن لیگ نے بطور اپوزیشن جاندار اور تعمیری رویہ اپنائے رکھا جس کی وجہ سے سیاسی ماحول بہت بہتر رہا. پرویز مشرف کے طویل آمرانہ دور  کے بعد جمہوریت کا پودا پنپنا شروع ہو چکا تھا . اگر اس طرع کا رویہ بعد میں تحریک انصاف بھی اپنائے رکھتی تو اس وقت سیاست میں ہیجان اور خلفشار پیدا نہ ہوتا.

اور نہ ہی جمہوری اقدار کو ضعف پہنچتا. موجودہ اپوزیشن کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا بڑی زیادتی ہوگی کہ اس نے شروع کے دو سالوں میں موجودہ حکومت کو کام کرنے کے لئے بھرپور موقع فراہم کیا اور اس کے کاموں میں روڑے اٹکانے سے گریز کیا تاکہ وہ عوامی مسائل حل کرنے کے طرف توجہ دے سکے. یہ علیحدہ بات ہے کہ عمران خان کی حکومت بری طرز حکمرانی کی بدولت مہنگائ، بیروزگاری اور دیگر عوامی مسائل پر توجہ دینے اور انہیں حل کرنے میں بری طرع ناکام رہی.

حکومتی وزرا اور معاونین اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے اپوزیشن راہنماوُں کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں. محترم وزیراعظم خود بھی اپنے ساتھیوں کو اپوزیشن کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے  کی تاکید کرتے دکھائ دیتے ہیں. جہاں تک مہنگائ کا تعلق ہے وہ اسے پچھلی حکومتوں کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں. لیکن خان صاحب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیوں نے ن لیگ کے برسراقتدار آتے ہی اس پر چڑھائ شروع کردی تھی.

کبھی دھرنے کے ذریعے اور کبھی قانونی معاملات پر  اور آخرکار نوازشریف جو عوام کے ووٹوں کے ذریعے پانچ سال کے لئے منتخب ہوئے تھے کو نااہل کراکر دم لیا.
اس وقت بعض وزرا اور حکومتی ترجمانوں نے عوام کی توجہ اپنی بری کارکردگی سے ہٹانے کے لئے  ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ پر بہتان تراشی پر مصروف ہیں.
وزرا بلاول بھٹو کی تقریر کرنے کے سٹائل پر بڑے طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے بڑے معنی خیز جملے ادا کرتے ہیں جو نہایت نامناسب اور ناپسندہ طرز عمل  ہے .اس طرع وہ ناداستگی میں   سندھی زبان اور لہجے کی تذلیل کررہے ہوتے ہیں جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے.دراصل قدرتی طور پر ہر شخص کا اپنا اپنا بات کرنے اور تقریر کرنے کا انداز ہوتا ہے  اورجسے  تضحیک کا نشانہ بنانے کا   کسی دوسرے فریق کو حق نہیں پہنچتا.

اصل بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کے اناڑی وزرا   اور معاونین کی تربیت اس انداز میں ہوئ ہے کہ وہ تہذیب اور اخلاق  اور دلیل کے ساتھ بات کرنے سے عاری ہوچکے ہیں.اس کے علاوہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپنے محکموں میں اچھی پرفارمنس دینے میں بری طرع ناکام ہوچکے ہیں. لہذا وہ اپوزیشن راہنماوُں کی تذلیل اور کردار کشی کر کے اپنے نمبر بناتے ہیں.
پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان کی 23 نشستوں پر انتخابات منعقد ہوئے جس میں حسب توقع تحریک انصاف اور آزاد اراکین نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی جوکہ حیران کن  تھا  کیونکہ جناب بلاول بھٹو نے  بھرپور اور جاندار انتخابی مہم چلائ تھی.

انہوں نے دو ہفتے گلگت بلتستان کے طول و عرض میں گزارے اور اس دوران بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا. بلاول بھٹو کی انتخابی مہم کو بھرپور پذیرائ حاصل رہئ لیکن  نتاہج مایوس کن رہے.جناب بلاول بھٹو اور ن لیگ کی قیادت نے جی بی کے نتاہج کو مسترد کردیا ہے. ایک کالم نگار کے مطابق انتخابات سے تین دن پہلے بلاول بھٹو کی مریم نواز سے ملاقات کو شکست کیوجہ قرار دے رہے ہیں.ان  کے مطابق علاقے کے ووٹرز نے اس ملاقات کو پسند نہیں کیا.
دوسری جانب ن  لیگ کے سابق چیف منسٹر حفیظ الرحمن نے اپنی شکست کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت پر سنگین الزامات لگائے جو حیران کن تھے جس پر چئرمین بلاول بھٹو نے شدید تحفظات کا اظہار کیا.

بحرحال یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موجودہ بندوبست میں شفاف انتخابات کا ہونا  ناممکن ہوچکا ہے.لہذا اپوزیشن اتحاد نےجو  چودہ نکات کا چارٹر تیار کیا ہے اس کی روشنی میں نئے نظام کی طرف پیش رفت وقت کا تقاضہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :