
بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے
ہفتہ 9 جنوری 2021

محمد فیصل
(جاری ہے)
موت کتنی اذیت ناک ہوسکتی ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو ان گیارہ تابوتوں کو کھولنا ہوگا اور پھر احساس سے عاری ہو کر ان چہروں کی جانب دیکھنا ہوگا جو جرم بے گناہی میں مارے گئے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی خیبر پختونخوا کے ایک مدرسے میں معصوم طلبا دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور اب یہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے مزدور بھی اس ہی دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ہم وہ قوم ہیں جو آرمی پبلک اسکول میں اپنے بچے کٹاکر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ہم ہر واقعہ کو سیاست کی نذر کردیتے ہیں۔مچھ میں ہونے والی دہشت گردی کوئی سانحہ نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی جنازہ ہے۔ ہمارے حکمران دعویدار ریاست مدینہ کے ہیں اور ان کے کردار فرعونیت کے عکاس ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش آجاتا ہے تو اس کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکا نے ایک ایسا سسٹم بنایا کہ اس کے بعد آج تک وہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوسکا ہے اور وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ ایک قوم ہیں اور ہم ایک ایسا ریوڑ کہ جس کو ہانکنے والے بھی نہیں جانتے کہ ان کو لے کر کہاں جانا ہے۔
کہتے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی جنرل ضیاء الحق کے تحفے ہیں۔چلیں وہ تو ایک آمر تھا اس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ایسی قوتوں کو مضبوط کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے بعدآنے والے روشن خیال اور لبرل حکمرانوں نے اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے ؟کیا ہم دہشت گردی کے ہر واقعہ کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں اگر یہ بیرونی سازش ہے تو کئی دہائیاں گذرجانے کے باوجود ہم ان سازشوں کو ناکام بنانے میں کیوں ناکام ہیں ؟ہم اپنے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں،بچوں،بزرگوں،جوانوں اور خواتین کے جنازے اٹھا چکے ہیں لیکن ہماری عقلوں پر اب بھی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ہم بحیثیت قوم فیصلہ ہی نہیں کرپارہے ہیں کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہمارا ایک قومی بیانیہ کیا ہوگا۔سانحہ اے پی ایس کے بعد بنایا جانے والا نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے ؟کیا ہماری سیاسی قوتیں اس بات کا اعتراف کریں گی کہ اقتدار کی کشمکش انہیں عوام کی جان و مال کے تحفظ زیادہ عزیز ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ ضیا الحق ہو یا عمران خان ہمارے تمام حکمرانوں کی سوچ ایک سی ہے۔
کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر مچھ میں ذبح ہونے والے بے گناہوں کے تابوتوں کے ساتھ موجود ان کے اہل خانہ کی اذیت کا کوئی شمار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔وہ دکھ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے آنسو خشک ہوگئے ہیں۔ بلاول ،مریم ،شیخ رشید اور نجانے کتنے سیاست دان لاشوں کے ساتھ موجود ان زندہ لاشوں کے پاس پہنچ کر دلاسے تودے رہے ہیں لیکن کوئی یہ یقین نہیں دلا رہا کہ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ الفاظ تو کچھ سخت ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ مچھ کے شہیدوں کی لاشوں پر سیاست کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک معاون خصوصی نے تو ان غمزدہ لوگوں سے پوچھ بھی لیا ہے کہ اگر وزیر اعظم یہاں آجائیں گے تو انہیں کیا فائدہ ہوگا ؟؟
میں نہ کوئی وزیر ہوں اور نہ ہی کوئی مشیر، میں نہ کوئی سیاسی مداری ہوں اور نہ ہی سفارتکاری کا کوئی شاہسوار۔میں ایک کھلاڑی کی نام نہاد ریاست مدینہ کا ایک شہری ہوں جہاں میتوں کو کاندھا دینے کے لیے مظلوموں کے گھر میں کوئی مرد باقی نہیں بچتا ہے۔ میں ظلم جنتے اس ہی معاشرے کا حصہ ہوں جہاں ایک کافر وزیر اعظم کو مسجد میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کے گلے لگ کر روتا ہوا سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی اس کافر وزیر اعظم کی رعایا ہوتا۔۔میرے بس میں ہوتا تو میں کوئٹہ بائی پاس پر موجود اس خاتون سے یہ ضرور کہتا کہ وزیر اعظم کا انتظار نہ کرو اور اپنی میتوں کو خدا کے حوالے کرو کیونکہ "بادشاہ" کو اونچا سنائی دیتا ہے لیکن رب سے یہ فریاد ضرور کرنا کہ ہمیں ظلم کا نہیں کفر کا نظام دیدے کہ جہاں ہمیں اپنے پیاروں کو کاندھا دینے کے لیے مرد مل جائیں۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد فیصل کے کالمز
-
غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کب رکے گا؟
اتوار 13 فروری 2022
-
ہم کون سا نظام چاہتے ہیں ؟
بدھ 26 جنوری 2022
-
بلدیاتی قوانین پر احتجاج کیا رنگ لائے گا؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
رحمت اللعالمین کے ظالم امتی
منگل 7 دسمبر 2021
-
محسن پاکستان
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
عوام کیا چاہتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
''1971تمہارا آخری چانس تھا''
پیر 9 اگست 2021
-
حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی
پیر 10 مئی 2021
محمد فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.