آزادی پاکستان میں مہاجرین کی کہانی

جمعہ 14 اگست 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

پاکستان کی آزادی کااعلان چودہ اگست انیس سو سنتالیس کو ہو ا ۔ میری پیدائش تو پاکستان بننے کے بعد کی ہے ۔ والدین نے جو کچھ مجھے بتایا وہ بندہ ان ہی کی زبانی سنانے کی کو شش کرے گا ۔ میرے والد صاحب چار بھائی اور تین بہنیں تھے ان میں تقسیم ہند کے وقت دو بھائی اور دوبہنیں شادی شدہ تھے ۔ جیسا کہ والد صاحب فرماتے ہیں ۔
ہمارے اباؤ اجداد صدیوں سے متحدہ ہندوستان کے گاؤں جگت پور تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں رہائش پزیر تھے ۔

ہماری چاہی زمین تھی جس میں ہماری ضرورت کے لئے اناج ، سبزیاں اور دیگر سامان پیداہوتاتھا آم کے پیڑ بھی تھے ۔ مکئی کے کھیت بھی تھے ۔ ہمارے گاوئں میں مسلمانوں کے کافی گھر تھے اس کے علاوہ چند گھر ہندوؤں اور سکھوں کے تھے ۔ ہم سب بڑے اتفاق سے میل جول سے رہ رہے تھے کبھی کسی نے سوچانہ تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے ہماری ہندووئں اور سکھوں کے ساتھ دوستیاں تھی بھائی چارہ تھا ایک د وسرے کے گھر سے کھا پی بھی لیتے تھے صرف رشتہ داریاں نہیں تھیں ۔

(جاری ہے)

گاؤں کی بیٹی سب کی بیٹی اور عزت سانجھی ہوتی تھی ۔ پھر سننے لگے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک پاکستان بننے والاہے ۔ میں نے آٹھ جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی جس کی وجہ سے میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچرکے طورپر تعینات تھا جس کی وجہ سے مجھ تک خبریں پہنچ رہیں تھی پھر چودہ اگست کو پاکستان کے بننے کا اعلان ہو گیا جس میں یہ ذکر بھی تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے اور ہم لوگ یہ گاؤں چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں گے اس وقت تک کوئی ہنگامہ آرائی نہ تھی ہر طرف امن وا مان تھا۔

پھر اگست گزر گیا اور ستمبر نصف میں ایکا دوکافسادات کی خبریں ا ٓنا شروع ہو گئیں ستمبر کے آخر میں خبریں آنے لگیں کہ فلاں مسلمانوں کے گاؤں کو آگ لگا دی گئی اور آج کل میں ہمارے گاؤں کو بھی آگ لگا دی جائے گی ۔ ہمارے گاؤں کے ہندو اور سکھوں نے ہمیں روکنے کی بہت کوشش کی کہ نہ جائیں ہم آپ لوگوں کو کچھ نہ ہونے دیں گے مگر باہرسے آنے والیں خبریں بتا رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمیں تحفظ نہ دے سکیں گے اس وقت ہمیں یا تو اسلام چھوڑنا ہوگا یا مرنا ہوگا اس لئے ہم سب نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ہم سب نے سامان جو ہو سکتا تھا وہ اکٹھا کر ناشروع کردیا ہمارے پاس بیل گاڑیاں تھی اس وقت ہماری یہی ما ل بردار اور مسافر گاڑی ہوا کر تی تھی ۔

ایک دن میں صبح کھیت میں مکئی کی گوڈی کر نے چلاگیا گلے میں قمیض نہ تھی صرف ہلکی سی چادر باندھ رکھی تھی کہ مجھے میرا بھائی بلانے آیا اور کہا کہ سب لوگ یہاں سے جانے کے لئے تیا ہو گئے ہیں یہ کام چھوڑو اور چلو میں نے وہ کا م وہیں چھوڑا اور اس حالت میں اپنے سسرال چلا گیا کیونکہ بیوی میکے میں گئی ہوئی تھی جب میں وہاں پہنچا وہ بھی گاؤں سے جانے کے لئے تیار تھے میری بیوی نے میرے ساتھ جانے سے معضرت کر لی اور کہا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ہی جا نا چاہتی ہوں میں وہا ں سے واپس آگیا اس وقت تک میرے گھر والے گاؤں چھوڑ چکے تھے میں ان سے گنڈھا سنگھ ہیڈ پر ملا اس وقت تک شام ہو نے والی تھی مغرب کے بعد ہمارے قافلے پر بلوایوں نے حملہ کر دیا لیکن بروقت مجھے پتہ چلا کہ اس گروہ کا لیڈر میرا کلاس فیلو تارا سنگھ ہے ا س نے بھی مجھے پہچان لیا اور ہمارا نقصان کیے بغیر ہمیں اپنے علاقے کی حدود تک بحفاظت چھوڑ گیا ۔

ہم رات بھر چلتے رہے راستے میں بلوایوں نے چھوٹے چھوٹے کئی حملے کیے اور ہمارا کافی نقصان بھی ہوا ہماری کئی بیل گاڑیاں چھین لی گئیں ۔ صبح ہم کھنہ شہرکے قریب پہنچ گئے وہاں پاک فوج کی نگرانی میں ایک کیمپ لگا ہوا تھا اس میں قیام کیا وہاں ہم لوگ ایک ماہ تک رہے ارد گرد کے گاؤں سب خالی ہو چکے تھے فوج کے کر نل صا حب کا حکم تھا کہ کوئی آدمی مرد یا عورت اکیلا نہ جائے جب کیمپ سے باہرجائے حفاظت کے لئے محافظ ساتھ لے کر جائے جب کسی کے پاس راشن ختم ہو جاتا تو کرنل صاحب ایک فوجی ساتھ بھیج دیتے اور جہاں کہیں راشن پڑا ہوا ملتا اٹھا کر لے آتے وہاں سے ہمیں ریل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا لاہور پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا سجدہ شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ملک مین پہنچ گئے ۔

اپنے ملک میں پہنچے تک ہم بلکل خالی ہاتھ ہو چکے تھے سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی خاطر قربان کر دیا تھا ۔ لاہور میں بھی ایک بڑا کیمپ لگا ہوا تھا لاہور تک آتے ہوئے موسم سرد ہو چکا تھا۔ کیمپ میں ایک میم صاحبہ رات کے وقت جو کوئی شخص بغیر لحاف کے ہوتا میم صاحبہ اسے لحاف او ڑھ دیتیں تھیں کھانے پینے کا انتظام بھی اچھا تھا ۔ ہم اس کیمپ میں تقریباًایک ماہ تک رہے اس طرح ہم اپنے ملک میں داخل ہوئے۔


 والدہ صاحبہ جو والد صاحب کے ساتھ نہ آسکیں تھیں ان کی کہانی الگ ہے ان کی زبانی سنیے ۔ ہمارا قافلہ گاؤں سے چلا تو ساری رات ہم بھی چلتے رہے صبح راج پورہ ریلو ے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے دوپہر تک گاڑی سرہند ریلوے سٹیشن پر پہنچی وہاں گاڑی پر بلوایوں نے حملہ کر دیا اور جو ان کے ہاتھ آیا اسے قتل کر دیا گیا ہم تین بہنیں ، میری تین سالہ بیٹی ،ہماری دالدہ ، تین بھائی اورتین چچا سب ساتھ تھے لیکن جب گاڑی پر حملہ ہوا تو ہم سب بکھر گئے ۔

ہم تین بہنیں میری بیٹی جسے میری چھوٹی بہن اٹھا کر لائی تھی اپنی والدہ کے ساتھ گاڑی سے نکل کر کھیتوں میں چھپ گئیں کماد کی فصل تھی اور فصل بھی کافی بڑی تھی ۔ دو یا تین گھنٹے کے بعد گاڑی کی طرف سے آنے والا شور ختم ہو گیا تو ہم سب جو سہمی ہوئیں بیٹھیں تھیں نظر اٹھا کر دیکھا ویرانہ محسوس ہوا ہماری والدہ نے ہم سے مشورہ کیا کہ اب زندگی کے دو راستے ہیں ایک راستہ ہے کہ کوئی ہندو یا سکھ ہم سب کو پکر کر لے جائے گا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنائے گا ہمیں ہندو یا سکھ بنا کر اپنے ساتھ رکھے گاکیونکہ ہم سب گوری چٹی تھیں جوان تھیں خوبصورت تھیں تم سب کو یہ راستہ پسند ہے یا پھر کسی کنواں میں چھلانگیں لگا دیں اور زندگیوں کا خا تمہ کر دیں سب نے زندگیوں کے خاتمہ پر اتفاق کیا اور قریب ہی ایک کافی بڑاکنواں تھا ہم سب اپنی والدہ کے ساتھ اس کنواں کے کنارے پردائرے کی شکل میں کھڑی ہو گئیں قریب تھا کہ ہم سب چھلانگیں لگا دیں کہ ایک بزرگ سا آدمی وہاں آگیا اس نے کہا کہ بیٹا یہاں کیوں کھڑی ہو والدہ نے اپنا مدعا بیان کیا تو بزرگ آدمی نے کہا کہ بیٹا ایسانہ کر و تم سب میرے ساتھ چلو قریب ہی میرا گھر ہے ابھی تک ہمارے گھروں پربلوایوں ں کا حملہ نہیں ہوا کچھ گھر خالی ہیں تم ان میں رہو جب ہم یہاں سے جائیں گے تم کو بھی ساتھ لے جائیں گے ۔

ہم سب اس بزرگ کے ساتھ چل دیں ۔ اس گاؤں میں کئی گھر خالی تھے ہمیں ایک مکان دے دیا ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہم اس گاؤں میں تقریباً ایک ہفتہ تک رہیں ۔ اتنے میں پتہ چلا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے ہم اس قافلے میں شامل ہوگئیں اور اس قافلے میں ہی ہمارے والد ،دو بھائی اور چچا مل گئے ہمارا بڑا بھائی نہ مل سکا ۔ ہم سب پاکستان میں داخل ہوئے اور سجدہ شکر ادا کیا جب ہم پاکستان میں داخل ہوئے ہمارے پاس کچھ نہ تھا اللہ تعالیٰ کالاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہماری عزتیں محفوظ تھیں مال اللہ تعالی ٰ کا تھا اس کے راستے میں قربان کر دیا ۔

ہم سب لاہور کے مہاجر کیمپ میں تقریباً ایک ماہ تک رہے وہاں سے ہم لائل پور کے گاؤں سمانہ میں چلے گئے وہا ں سے میرے میاں اپنے گھر سمندری شہر کے قریب چک نمبر ۴۷۹ گ ب میں لے آئے۔
پاکستان میں آنے کے بعد جو مہاجرین پر گزری و ہ انشا ء اللہ تعالیٰ اگلی قسط میں بیان کر نے کی کو شش کروں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :