با اختیار جنوبی پنجاب

پیر 6 ستمبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

 پنجاب  واسیوں   کے لئے یہ بات  اطمینان قلب  کا باعث ہے کہ ہمارے  جنوبی   وسیبیوںکو   تخت لاہور کی قید سے آزادی مل گئیہے،امید ہے کہ  وہ وقت بھی جلد آئے گا جب  آئینی ضرورتیں پوری  ہونےکے بعد  جنوبی پنجاب باقاعدہ  طور پر ایک  صوبہ   بھی بن  جائے گا مگر   جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کے اپنے  صوبہ میں جو اختیارات اور آسانیاں  حاصل ہونا  تھیں ان میں سے نوےفیصد سے زیادہ ان کو  ایک با اختیار جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ  کے قیام سے مل گئی ہیں۔

اکثر سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کو بااختیاراور ایک علیہدہ صوبہ بنانے کی باتیں  کرتی تھیں  مگر اس سلسلے میں عملی طور پر  کسی نے کچھ نہ کیا حالانکہ اس ملک اور پنجاب میںجنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجنوں سیاستدان  وزیر اعظم ، صدر مملکت  اور وزیر اعلیٰ  کے  عہدوں پر بھی  متمکن رہے۔

(جاری ہے)

میں سوچ رہا تھا کہ جس عثمان بزدار کو ہم سب ایک بے اختیار  اور نہ جانے کیسا کیسا وزیر اعلیٰ قرار دیتے تھے  وہ  نہ صرف  جنوبی پنجاب  کے لوگوں کا    مسیحا   بنا   بلکہ  اس نے  یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ایک مضبوط  اور  کام کرنے والا   با اختیار  وزیر اعلیٰہے،جو پورے پنجاب کے لوگوں  کا درد رکھتا ہے۔

ہفتہ کے روز وہ چار گھنٹے تک ایک پاوں پر کھڑا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب،لاچار  اور عام لوگوں کے مسائل نہ صرف سنتا رہا بلکہ ان میں سے اکثر  کو موقع پر حل بھی کر دیا،میں نے لاہور یوں  کے لئے بھی اسے ایسا ہی بے چین پایا۔    
جنوبی پنجاب  ایک الگ صوبہ کی  تحریک کو ماضی کی کسی سیاسی جمہوری حکومت نے اہمیت نہ دی،مگر عمران خان کے منشور کا ،جنوبی پنجاب صوبہ ایک اہم حصہ تھا،اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک انصاف  نے  جنوبی پنجاب کے  ایک بیٹے  کے  سرپر پنجاب کی پگ رکھی،اور  اس  نے بھی   اس پگ کو داغ لگانے کی بجائے اجلااور شفاف بنا دیا،جنوبی پنجاب صوبہ کو زبان کی بنیادپرخو د مختاری دینے کی بجائے انتظامی بنیاد پر صوبہ بنانے کا فیصلہ بھی مدبرانہ ہے،ورنہ پاکستان کے صوبوں کی پہچان ہی مقامی زبانیںبن چکی تھیں اور اس سوچ نے ملکی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا،محمود اچکزئی پشتو کی بنیاد پر افغانستان سے مل کر پختونریاست بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں،جی ایم سید نے سندھو دیش کا نعرہ بلند کیا،سندھ کے شہری علاقوں میں اردو  بولنے والےمہاجروں کیلئے کراچی الگ صوبہ کے مطالبے کیساتھ بانی ایم کیو ایم نے  نفرت و تعصب کا جو الائو دہکایا اس کو دیکھتے ہوئے زبانکی بنیاد پر نئے صوبہ کی تشکیل کسی بھی حوالے سے مناسب نہ تھی۔


اگر چہ جنوبی پنجاب کو باقاعدہ  صوبہ بنانے کیلئے ابھی بہت سے آئینی  اقدامات کی ضرورت ہے،فوری طور پر یہ صوبہ ایک انتظامییونٹ ہو گا جیسے گلگت بلتستان ہے،اس کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے جس کیلئے سیاسی ہم آہنگی اور یکسوئی کی ضرورتہے جو کہیں دکھائی نہیں دے رہی،مگر موجودہ  پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کیلئے رولز آف بزنسمیں
کئی  بار  ترامیم کی منظوری دی ہے،جس کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کو مالی اور انتظامی طور پر با اختیار بنا دیا گیا ہے،نئے صوبہ کےسیکرٹری  صاحبان پنجاب کے سیکرٹریوں کی طرح اپنے محکموں کو چلانے میں مکمل آزاد اور خود مختار ہوں گے، تمام سیکرٹریصاحبان اپنے محکموں کے ملازمین کو  ترقی، بھرتی، تبادلے اور چھٹیاں دینے میں با اختیار ہوں گے،ان کو وہ تمام اختیارات حاصلہوںگے جو ایک باقاعدہ آئینی صوبہ کے سیکرٹری کو حاصل ہوتے ہیں،اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے منتخب ارکان کو تحفظاتتھے،ان کا خیال تھا کہ  جنوبی پنجاب  سیکریٹئیرٹ  بننے کے باوجود انتظامی مشینری بے اختیار ہے،تحفظات کے خاتمے کیلئے پہلے بھیرولز میں دو مرتبہ ترامیم کی گئیں مگر منتخب ارکان اور عوام مطمٔن نہ تھے جن کے اطمینان کیلئے  پنجاب کابینہ  نے رولز میں نئی ترامیمکی منظوری دی،اس ترمیم کے تحت جنوبی پنجاب صوبہ کے تمام سیکرٹریز اپنے محکمہ میں گریڈ اٹھارہ تک کے افسروں اور نچلے درجےکے ملازمین کے تقرر تبادلہ ترقی کے بارے میں با اختیار ہوں گے۔


تین ڈویژنز اور 11اضلاع پر مشتملل  جنوبی پنجاب  کے تمام سیکرٹری محکمانہ معاملات میں آزاد اور خود مختار ہوں گے،جنوبی پنجابکیلئے 33فیصد بجٹ بھی خوش آئند ہے،اے ڈی پی، بک بھی  پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے الگ مرتب کی جائے گی،نئے صوبہ کیلئےسروس ٹربیونل کی بھی منظوری دی گئی ہے،اس تاریخی اقدام سے سے کروڑوں سرائیکی وسیبیو ں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوسکیں گے،انہیں بار بار لاہور کی یاترا نہیں کرنا پڑے گی،اخراجات اور وقت کی بھی بچت ہو گی،اور سب سے بڑھ کر نفرت کا خاتمہہو گا،وزیر اعظم بہت جلد بہاولپور میں جنوبی پنجاب   سیکریٹیرٹ  کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹریبھی مکمل طور پر با اختیار ہوں گے۔


آئینی رکاوٹوں کی وجہ سے خزانہ،داخلہ،ریونیو،قانون اور ایس اینڈ جی اے ڈی کے محکموں کا اختیار فی الحال  ہائر لیول  پر  لاہور میںرکھا گیا ہے مگردستوری آئینی رکاوٹیں دور ہونے کے بعد یہ محکمے بھی جنوبی پنجاب کے حوالے کر دیئے جائیں گے،فوری طور پر ایڈیشنلو اسسٹنٹ کمشنروںکے تبادلہ و تقرری کا اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو   تفویض کر دیا گیا ہے،جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیفسیکرٹری کو پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے،انفراسٹکچر کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہونےکے بعد دوسرے مرحلے میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی لوگوں کے اکثر و بیشتر مسائل مقامی طور پر حلہونے  لگے ہیں،جو مقامی لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا،یہاں ایک بات جو تاریخی حقیقت ہے وہ بھی ملحوظ رہنی چاہیئے ماضی میںصوبائیت کا جو تعصب ابھرا تھا اس کی وجہ بھی ون یونٹ تھا جب سندھ،بلوچستان،کے پی کے کے عوام کو چھوٹے چھوٹےمسائل حل کرانے کیلئے لاہور آنا پڑتا تھا،مگر ون یونٹ ٹوٹتے اور صوبے بنتے ہی یہ تعصب کافی حد تک ختم ہو گیا تھا  ،اب جنوبیپنجاب  سیکرٹیریٹ کے قیام سے پنجاب کے اندر پلنے اور سر اٹھانے والی پنجابی سرائیکی  نفرت  بھی  ختم ہو جائے   گی اور جب جنوبی پنجاب ، ایک صوبہ بن کر  مکمل با اختیار ہو جائے گا تو نفرت بھائی چارے میں بدل جائے گی،یہ اقدام عمران خان اور عثمانبزدار کا صوبہ اور صوبہ کے عوام پر بہت بڑا احسان ہے جو مستقبل میں یاد رکھا  جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :