کیا ہم جرائم کی روک تھام میں رکاوٹ ہیں

پیر 14 ستمبر 2020

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

لاہور موٹر وے پر جو واقعہ ہوااگر اسے صرف زیادتی کا نام دے کر دیکھا جائے تو جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا افسوس ناک ہے شرمناک بھی لیکن جزباتی رویہ اپنانے کی بجائے ذرا دھیان سے سوچیں تو اس واقعے میں کئی جھول ہیں بچوں اور دیگر زیادتی کے واقعات سننے کے بعد دل بہت ہی بوجھل رہتا ہے لیکن اس واقعے کے بعد اللہ جانے دل میں پہلا گمان ہی یہی ٓیا کہ یہ واقعہ کچھ اور ہے انڈین ڈرامے یا فلم جیسا ذرا غور کیجیے ایک تو جیسے ہی آئی جی اور سی سی پی او تبدیل ہوتے ہیں نون لیگ ان کے خلاف عدالت چلی جاتی ہے اس کے اگلے ہی دن ایک عورت فرانس سے آتی ہے اور فورا اس کا ریپ ہو جاتا ہے ۔


اگر ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ فرانس سے آئی ہوئی عورت ہی کیوں ؟تو بہترین جواب موجود ہے کہ فرانس سے آئی تھیں انہیں علم نہیں تھا کہ اکیلے سفر نہ کریں رات کو ،اگر خدا نخواستہ یہ واقعہ کسی پاکستانی خاتون کے ساتھ ہوتا تو میڈیا اور چیخنے چلانے والے ایسے ہی بھول جاتے جیسے پہلے واقعات بھول گئے ہیں اور سب نے یہی کہنا تھا کہ پاکستان میں رہتی ہیں آپ کو کس نے کہا اکیلے سفر کریں آپ کے بھائی یا باپ یا فلاں فلاں کدھر تھے شائد حادثے سے پہلے ہی پاکستانی میڈیا ریپ ریپ کا شور مچا دیا تھا جبکہ ابھی پوری طرح تحقیق ہونا باقی تھیں اب جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا علم ہی نہیں کون ہے گھر ،شوہر کچھ بھی علم نہیں مقام بھی وہی جہاں سے فینسنگ ٹوٹی ہے یعنی ڈاکوؤں کو علم تھا یہاں گاڑی کا پیٹرول ختم ہونا ہے اوپر سے میڈیا کا شور اور بحث مباحثے سن کر لگتا ہے پہلا واقعہ ہوا ہے لاکھوں منہ اور لاکھوں باتیں حتی کہ شیریں مزاری جیسی لبرل بھی اس واقعے پر بول اٹھیں اور فورا سی سی پی او کے بیان کو غلط رنگ دے کر تنقید شروع کر دی یہ وہی محترمہ ہیں جو پاکستان میں بچوں ،بچیوں اور خواتین سے زیادتی پہ سزائے موت کی سخت مخالف ہے ۔

(جاری ہے)


ان کو لگتا ہے یہ سزائیں انسانیت کے خلاف ہیں اس کے علاوہ آپ کو موم بتی مافیا ،لبرل انکلز ،آنٹیزبھی چیختے چلاتے نظر آئیں گے جو بچوں سے زیادتی کے واقعات پر بالکل خاموش رہتے ہیں آپ خود سوچیں کیا چل رہا ہے مجھے تو لگتا ہے کچھ وقت بعد اس خاتون کو فرانس لے جا کر مہرہ بنا لیا جائے گا جیسے ملالہ کو استعمال کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی نئی سیاسی پناہ ،کوئی نئی ایکٹیویسٹ پاکستان کو غیر محفوظ قرار دلوانے کا کھیل بچوں سے زیادتی پر سزاؤں کی بات ہوئی تو پی پی پی نے سزاؤں کی امخالفت کر دی اس واقعے سے ایک دن قبل ہی پی پی پی اسمبلی میں سزاؤں کی مخالفت کر کے اٹھی تھی کیو نکہ اس پارٹی کے بہت سے چیلے بچوں سے زیادتی کے جرائم میں ملوث ہیں ابھی چند ہفتے قبل کی بات ہے جو ایک استاد سارنگ نامی پکڑا گیا اس شخص نے 138بچوں سے زیاتی کا اعتراف کیا مگر پی پی پی کا سپورٹر ہے اور اس کا بھائی پی پی پی قیادت کا قریبی ہونے کی وجہ سے سارنگ کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا اس واقعے کے علاوہ پاکستان میں زیادتی کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں ابھی بھی مجھے کسی نے ایک میسج بھیجا ہے کہ بہاولپور تھانہ بغداد الجدید کے نواحی علاقے 7بی سی میں انیس سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کا معاملہ ہوا ہے زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی لودھراں کی رہائشی ہے جو گذشتہ ایک ماہ سے سہیلی کے گھر رہائش پذیر تھی یہ بات ترجمان پولیس نے بتائی لڑکی بیان کر رہی ہے کہ اس کی سہیلی رشیدہ کے بھائی رفیق نے ہی اس کے ساتھ زیادتی کی اس کے ساتھ دو نامعلوم افراد اور بھی تھے لیکن انہوں نے زیادتی نہیں کی اب لڑکی کے بیان پر میڈیکل کرا کے مقدمہ درج کیا جا رہا ہے اب اس میں لڑکی یا تو خود مدعی بنے گی یا اس کا کوئی لواحقین میں سے لیکن حیرت انگیز طور پر فرانس سے آئی خاتون کا نہ تو خود کوئی اتہ پتہ ہے نہ ایف آئی آر درج کرانے والے ظاہر ہوئے ہیں بلکہ جن کے نام سے مقدمہ درج ہوا ان کے نمبر بند اور ایڈریس جعلی نکلے یہ کیا معمہ ہے بھئی ؟ یعنی ڈاکو پیسے اورگاڑی چھوڑ کر بس زیادتی کر کے چلتے بنے اس سے دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی لگتی ہے
اس واقعے کے بعد کچھ بیوقوفوں نے انٹر نیشنل میڈیا کا نام دے کر بنگلہ دیش کے 24اکتوبر 2019کے سولہ ریپیسٹ کو سزائے موت کے فیصلہ کو گذشتہ دنوں کا فیصلہ بتا کر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جج ایسے کسی بھی ملک کے خلاف انگلی نہیں اٹھا سکتا فرض کریں جج کسی ملک کا نام لیتا تو بھارت کا لیتا جسے دنیا ”ریپستان “ کہتی ہے جج کے الفاظ تھے کہ یہ بنگلہ دیش ہے یہاں اس جرم کے خلاف سخت قانون موجود ہے ۔


اصل میں یہ سارا کھیل دنیا میں پاکستان کے دن بہ دن بہتر ہوتے امیج کو اور پاکستان کے متعلق دنیا کے بہتر ہوتے رویے کو نقصان پہنچانے کے لیے ،الحمداللہ پاکستان میں سینکڑوں غیر ملکی خواتین آج تک اکیلے سفر کر چکی ہیں جن کی وڈیوز دنیا دیکھ چکی ہے ایسے میں دنیا کو پاکستان کا یہ مثبت پہلو کہاں سے پسند آتا خاص کر ہمارے پڑوسی بھارت جو ریپستان کے نام سے مشہور ہے یقینا یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کے مفادات پر بھارت کے مفادات کو ترجیع دیتے ہیں جنھوں نے پاکستان کو بھارت کے ایما پر دہشت گرد کہا بھارت کے ایماپر پاکستان میں ڈیموں کے خلاف کمپین چلائی بھارت میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو پاکستان میں بھی تیزی آ گئی بھارت میں خواتین سے زیادتی کے واقعات عروج پر پہنچے تو پاکستان میں بھی تیزی آئی بھارت کو غیر ملکی خواتین کے لیے غیر محفوظ سمجھا جانے لگا تو پاکستان ایک جنت ثابت ہوا لیکن اس پاکستان کو بدنام کیا جانا تھا اور ان سب باتوں کے پیچھے وہی مافیا ہے وہی لوگ ہیں جن کے لیے بھارت زیادہ اہم ہے اب حکومت کو چاہیے اس واقعے میں ملوث کرداروں کو تلاش کر کے عبرت ناک سزا دی جائے قانون سازی کی جائے ایسے واقعات کے لیے ایک الگ سے ٹاسک فورس قائم کی جائے جو وفاق کی زیر نگرانی ہو اور پورے پاکستان میں ایسے واقعات کا تدارک کرے جیلوں میں موجود ایسے جرائم میں ملوث مجرموں کو فورا عبرت کا نشان بنایا جائے ۔


تنویر احمد نامی ایک پاکستانی جو پچھلے سات سال سے عمان میں کام کرتے ہیں انہوں نے بھی کچھ تجاویز دی ہیں جن سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہو وہ کہتے ہیں ہماری عوام میں تعلیم کی کمی جاہلیت اور قانون سے نا واقفیت کی بنا پر اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے جن کی وجہ سے بیرون ملک رہنے والے لاکھوں پاکستانی بھی ذلت و رسوائی کا سامنا کرتے ہیں اور جو لوگ پاکستان میں سیاحت کا شوق رکھتے ہیں وہ بھی پاکستان آآنے سے کترانے لگتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کا قانون از سر نو بنایا جائے جدید نظام لایا جائے پاکستان کے ہر پولیس اسٹیشن کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے اور نادرا کے ساتھ کنیکٹ کیا جائے جو آدمی بھی کوئی جرم کرے اس کی سزا اور جرمانہ کمپیوٹر میں ڈال دیا جائے اور پورے پاکستان میں ہر پولیس والے کے پاس موبائل میں ایک ایپ ہو جس سے ہر پاکستانی کا شناختی کارڈ چیک کیا جائے جس پر بھی کوئی جرم ہو اس کو اسی وقت گرفتار کر لیا جائے اور جس تھانے میں اس پر مقدمہ درج ہو اس کو اطلاع کر دی جائے یہ شخص گرفتار ہو چکا ہے آپ اس کو لے جا سکتے ہیں جو نیا قانون بنایا جائے اس میں سزا اور جرمانہ دگنا کر دیا جائے پولیس کے پاس اختیار ہونا چاہے کہ دو گواہوں کی گواہی پر مجرم کو قید کی سزا اور جرمانہ کر سکے اور ہر جرم کو کمپیوٹر میں ڈالا جائے تاکہ مجرم بھاگ بھی جائے تو اس کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکے اسی طرح ہر ٹی وی چینل روزانہ ایک گھنٹے کا پروگرام چلائے اگر چوبیس چینل ہیں تو چوبیس گھنٹے پروگرام چلے گا جس مین عوام کو جرم ،اس کی سزا اور جرمانے کے متعلق بتایا جائے اس طرح لوگوں میں اویرنیس پیدا ہوگی کہ جو جرم کرو گے اس پر اتنی سزا اتنا جرمانہ ہوگا عوام کو علم ہو کہ اتنا جرمانہ ہر حال میں دینا ہے قید البتہ فریقین کی آپس کی صلح کی صورت میں ختم ہو جائے گی ۔


ہر تھانے میں جرمانہ کریڈٹ کارڈ سے لیا جائے جو سیدھا حکومت کے اکاؤنٹ میں جائے کیش وصولی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور یہ قانون پاکستان کے ہر شہری پر لاگو ہو چاہے کوئی بڑے سے بڑا وزیر ہو یا افسر ہو یہ قانون سب کے لیے ہو تاکہ کوئی پولیس والا بھی کسی کو تھپڑ نہ مار سکے اس کو بھی جرمانہ اور سزا ہو اگر ایسا ہو جائے تو پچاس فیصد جرائم کم ہو جائیں گے !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :