عمران خان کے پاس ابھی سنبھلنے کا وقت ہے

منگل 22 جنوری 2019

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

پاکستان کوآزادہوئے72سال کاعرصہ گزرچکاہے مگربدقسمتی سے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کاموقع نہیں ملا، روز اول سے عوامی حکومت ناکام ہی نظرآتی ہے ایسالگتاہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی اندرونی وبیرونی سلگتی ہوئی سازشوں کوبجھانے کی کوشش نہیں کی جسکی وجہ سے حکمرانوں کے اقتدار کاچراغ جلتابجھتارہا، قائداعظم محمدعلی جناحکے رخصت ہوتے ہی جمہوریت کے زوال کاوہ دورشروع ہواکہ آج تک جمہوریت خطرے کی زدمیں ہے ،بابائے قوم محمدعلی جناح کے انتقال کے بعد صرف دس سالوں کے اندرسات وزیراعظم آئے اور گئے جس پرطنزکرتے ہوئے ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے کہاکہ میں نے اتنی اپنی ڈھوتی نہیں بدلی جتنے پاکستان نے وزیراعظم بدلے ہیں(ہندوستان کا1958ء تک پہلاوزیراعظم اقتدارمیں تھاجبکہ ہمارے سات وزیراعظم ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے میں ناکام ہوچکے تھے) مقامِ شکرہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء اور ایمرجنسی کی وجہ سے فوج کے سربراہان دیرتک اقتدارمیں قابض رہے وگرنا ناجانے دنیابھرمیں اورکتنی جگ ہنسائی ہوتی، میں ہرگز جمہوریت کامخالف نہیں اور ناہی آمریت کاحامی ہوں بلکہ میں توخلافت کے بعدجمہوری طرزحکومت کولوگوں کیلئے عمدہ و بہترین طرزحکومت سمجھتاہوں پرافسوس صد افسوس ہمارے حکمرانوں جمہوریت کے علمبرداروں نے کبھی سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیااپنے مفاد اوراناکی خاطرقومی وملی مفادات کونظرانداز کرتے رہے ان میں حکمرانی کاہنرہوناہوایک دوسرے کونیچادکھانے عزتِ نفس مجروح کرنے کے ہنرسے خوب واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری حکومتوں سے نوکرشاہی (بیوروکریسی)اور ادارے زیادہ مظبوط ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ملک کے 22ویں وزیراعظم کے طورپرماضی کے مایہ نازکرکٹر قومی ٹیم کے سابق کپتان جناب عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے وزیراعظم عمران خان نے گزرے دورکے حکمرانوں کے مقابلے میں پاکستان کے عوام کوایسے دلفریب خواب دکھائے کہ قوم خان صاحب کی متوالی ہوگئی، انہوں نے ماضی کے حکمرانوں پرشدیدتنقیدکی انکی ایک ایک کمی کوتاہی کی نشاندہی کی ،حکمرانوں کوخوب آئینہ دیکھایاعوام الناس کواعتماددلایاکہ وہ آکرسب ٹھیک کردینگے وزیراعظم نے ہمیشہ اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعے عوام سے تبدیلی کے وعدے کیئے جسکی بناپرعمران خان پاکستان کے نئی نسل کی امیدوں کے محوربن گئے، خان صاحب ایک سپورٹس مین عظیم کرکٹرزہونے کے باوجودبھول گئے کہ گراؤنڈکے باہربیٹھے کمنٹری کرناجتناآسان ہے فیلڈمیں کھیلنااتناہی مشکل، فیلڈ میں کھیل کر جیتنے کے لئے تجربے،عمدہ پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اچھی قسمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے وگرنافیلڈمیں شکست یقینی ہے۔

کپتان اوراسکی پوری ٹیم کی قسمت تو اچھی ہے پرتجربہ ناہونے کے برابرکھلاڈیوں کے پرفارمنس انتہائی ناقص جسکی وجہ سے شکست کاامکان بہت زیادہ ہے اگرکپتان کوناکامی ہوئی توکپتان کا بھرم اور عوام الناس کی امیدبکھرجائے گی جسکاخمیازہ قوم کو مڈٹرم الیکشن کی صورت میں بھگتناپڑیگا، یقینا اس وقت قوم اس کامتحمل نہیں ہوسکتا،چونکہ ابھی کچھ ہی وقت گزراہے سنبھلنے کابھی موقع ہے اس سے پہلے کے سب بکھرجائے حکومت کوچاہیئے کہ ماضی کی تلخ حقیقتوں سے سبق سیکھے بڑی مشکلوں اورمدتوں بعدملک خدادادمیں جمہوریت کواستحکام نصیب ہواہے لولی لنگڑی ہی صحیح پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوجمہوری حکومتوں کواپناآئینی مدت پوراکرنے کاموقع ملاہے جوکہ خوش آئندبات ہے وزیراعظم صاحب کواس تسلسل کوبرقراررکھنے کیلئے برداشت کامادہ پیداکرناہوگاجارحانہ سیاست کوترک کرناہوگاکپتان اورانکی ٹیم کو کمنٹری پرنہیں پرفارمنس پرتوجہ دینی ہوگی اپنے تلخ جملوں سے اپوزیشن کو بھڑکانے کے بجائے مثبت کارکردگی سے عوام الناس کادل جیتناہوگا، بڑھتے ہوئے مسائل پرقابوپانے کے لئے اپوزیشن سے دوستانہ مراسم قائم کرنے ہونگے پارلیمانی طرزروایات کوقائم رکھتے ہوئے اپوزیشن کے تجربہ کار اور سلجھے ہوئے رہنماوں سے صلاح مشورے کرنے ہونگے تاکہ عوام کوریلیف فراہم کرسکیں ، وگرناماضی کی طرح جمہوری قوتوں کے اختلافات کا فائدہ اداروں اورانکے کرپٹ افسران کوہوگااورجمہوریت کے علمبردار اورانکی حکومتیں ناکام ہوتی رہے گی، کیوناکہ صاحب! جمہوری طرزِحکمرانی کوئی کھیل نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :