
انکشافات کا موسم !
پیر 15 فروری 2021

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
کسی ملک کا بنیادی مسئلہ سیاسی و سماجی استحکام ہوتا ہے جو ہمارے ہاں پچھے دس سالوں سے نہیں آنے دیا گیا ، 2014 سے یہ ملک حالت نزع میں ہے ، پہلے دھرنے تھے،بعدمیں پانامہ کا ڈرامہ آگیا اور 2018 سے جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یا د ہے 2014 میں جب عمران خان صاحب نے دھرنا دیا تھا تب پاکستان سرمایہ کاری بورڈ نے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں دو سو چالیس سے زائد ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے تھے ، نواز شریف کانفرنس سے خطاب کر کے باہر نکلے تو صحافیوں اور سرمایہ کاروں نے انہیں گھیر لیا کہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی ، تب نواز شریف نے عمران خان سے اپیل کی تھی کہ ملک میں سیاسی استحکام آنے دیا جائے تاکہ یہ ملک آگے بڑھ سکے مگر عمران خان صاحب باز نہیں آئے اور آج وہ یہی مطالبہ اپوزیشن سے کر رہے ہیں اور اب ان پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ ملک ایسے ترقی نہیں کرتے ۔ پچھلے ڈھائی سالوں کے تجربات کے بعد عمران خان صاحب پر معرفت و ادراک کے جو در وا ہو رہے ہیں اہل دانش روز اول سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ لیڈر ہی کیا جو کسی کی سن لے ۔ اگرموجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں کا ماحصل نکالیں تو خان صاحب کا یہی معرفت و ادراک برآمد ہو گا ۔ کیا بہتر نہیں تھا کہ اس ملک کو تجربہ گاہ بنانے کی بجائے چلنے دیا جاتا اور صحیح سمت آگے بڑھنے دیا جاتا ۔ خان صاحب کے حالیہ بیانات اور ان کے اعتراف شکست کے بعد، ملک کے یہ ڈھائی سال برباد کرنے کا تاوان ہر اس شخص پر آنا چاہئے جس نے ”تبدیلی “ کے لیے راستہ ہموار کیا تھا ۔خان صاحب نے پچھے دس سالوں میں کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ٹرانسپریسی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ کرپشن اصل مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کی جڑیں کہیں اور ہیں ۔ اس ملک کا اصل بحران عدم استحکام ہے ، جس دن اس میں ملک میں سیاسی و سماجی استحکام آگیا اس دن یہ ملک صحیح سمت کی طرف چل پڑے گا ۔ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں ایوب خان کے دور کو سنہری دور کہاجاتا ہے ، اس دور کے سفارت کا روں کا ڈائیلاگ ہوا کرتا تھا کہ مستقبل میں کراچی ، دبئی یا نیویارک کون سا شہر زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔ اس دور میں شروع ہونے والے دنیا کے سول انجینئرنگ کے سب سے بڑے پروجیکٹ تربیلا اور منگلہ ڈیم کو دیکھنے کے لیے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس آیا کرتے تھے ۔ ضیا ء الحق کے دور حکومت میں بھی پاکستان نے ریکارڈ ترقی کی ، ایٹم بم بھی اسی دورانیے میں بنا اور ہم نے سپر پاور رشیا کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔مشرف دور تو ابھی کل کی بات ہے ، ہماری موجودہ حکومتوں کا سارا سٹرکچر مشرف دور کا دیا ہوا ہے ، ہمارے اکثر ادارے بھی مشرف دورمیں بنے اور میڈیا اور انفارمیشن کا انقلاب بھی مشرف دور کی باقیات میں سے ہے ، ان تینوں ادوار میں ملک کیوں آگے بڑھا ؟ اس کا واحد اور حتمی جواب سیاسی استحکام اور لانگ ٹرم دور حکومت ہے ، ہم جب تک اس نکتے کو نہیں سمجھیں گے یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا ۔ عمران خان پر انکشافات کا موسم اترا ہے ، الہامات کی برسات جاری ہے کاش وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں کہ انہوں نے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل کر اس ملک اور تئیس کروڑ عوام سے زیادتی کی ہے ، اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو شاید عوام”تبدیلی “ کے گناہ کو بھول کر انہیں قبول کرلیں ورنہ اب عمران خان کے پاس کچھ نہیں بچا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.