
داستان علم فروشوں کی
بدھ 30 ستمبر 2020

محمد کامران کھاکھی
ہوا کچھ یوں کہ ملک میں کرونا کی صورتحال کی وجہ سےتمام سکول ،کالج اور یونیورسٹییز بند تھے جس کی وجہ سے کئی پرائیویٹ سکولوں و کالجوں نے اپنے سٹاف کی چھٹی کرا دی اور کئی لوگ بے روزگار ہوگئے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے ایک صاحب کا فون پر پیغام موصول ہوا جن سے میرا تعلق صرف اس حد تک تھا کہ بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا تو کچھ دیر ان سے ملاقات ہو جاتی اور سلام دعا ہوجاتی تھی کیونکہ موصوف بچوں کے سکول کے ساتھ متصل کالج میں لیکچرر تھے اور فزکس میں ایم-فل کیا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بچوں کے سکول اور کالج کھل گئے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے مگر ان پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں نے اس دوران بچوں کی فیس میں نہ کمی کی نہ ہی ان چھ مہینوں کی فیس معاف کی بلکہ پوری پوری فیس تو وصول کی مگر اپنے آدھے سے زیادہ سٹاف کو نوکری سے فارغ کر دیا تاکہ تنخواہ نہ دینی پڑے اور اس طرح اس وبا کے دوران بھی ان کی آمدنی دوگنی ہو گئی جبکہ بے روزگار ہونے والے اساتذہ بھوک سے مرنے لگے۔ جب والدین نے احتجاج کیا کہ پڑھائی تو ہو نہیں رہی بچے گھر میں بیٹھے ہیں تو فیس کیوں وصول کی جارہی ہے تو سکول و کالج انتظامیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ جی ہم نے آن لائن کلاسیں شروع کر دی ہیں اور اگر آپ فیس نہیں جمع کرائیں گے تو آپ کے بچے کو سکول و کالج سے نکال دیا جائے گا ۔ اب چاہے کسی کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت ہے یا نہیں مگر فیس تو دینی پڑے گی۔ کچھ لوگوں کے لیے اس وباء نے فائدہ ہی فائدہ کیا ہے اور کچھ کی جان کے لالے پڑ گئے۔ کیا اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ غریب پر کیا ظلم ہو رہا ہے؟اعلانا ت تو بہت ہوئے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔اب حکومت یکساں نصاب کی بات تو کر رہی ہے مگر کیا اس سےاس نظام پر بھی کوئی فرق پڑے گا؟ ایک فزکس جیسے مضمون میں ایم-فل کو بھی نوکری کے لیے دھکے کھانے پڑِیں تو یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اپنے بہترین دماغ ضائع کر رہے ہیں اور ان لوگوں سے کام لے رہے ہیں جو اس قابل ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادر علمی جیسے اداروں میں بھی آج بچے محفوظ نہیں۔
ہم نے تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا ہےیعنی ان سکولوںاورکالجوں نے بچوں سے فیس تو پوری لینی ہے اور ان کی کتابوں ،کاپیوں ،بستوں سمیت ان کا یونیفارم، جوتے، جرابیں تک بھی سکول والوں سے خریدنی پڑتی ہے، اس سے بھی منافع الگ ۔ان علم فروشوں کے بنائے ہوئے کارخانوں میں علم ملے یا نہ ملے مگر ان کے مالکوں کے اکاونٹ ضروربڑھتے جائیں گے۔ ان میں اساتذہ کو پڑھانا آتا ہو یا نہ آتا ہو مگر وہ بچوں اور ان کے والدین کو بے وقوف بنانے کے فن میں طاق ہونے چاہییں۔ اسی لیے نسلوں کے ان معمار وں سے جو نسل تیار ہوتی ہے وہ علم کے حقیقی معنوں سے بہروہ ور ہی نہیں ہو پاتی اور معاشرہ میں تعمیری کاموں کی بجائے وہ بھی پیسہ کمانے والی مشینیں بن جاتے ہیں اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمیں اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کل کو ایک معماری معاشرہ تشکیل پا سکے ورنہ اس معاشرہ میں بڑھتے ہوئے جرائم اور بڑھتے جائیں گے اور ہم گناہوں کی دلدل میں اور گرتے جائیں گے اور ہم اخلاقی پستی میں گرتے جائیں گے۔ ہمیں ان اساتذہ کا انتخاب کرنا ہوگا جن کا کردار مضبوط ہو کیونکہ ایک وہی ایسی نسل تیار کر سکتے ہیں جو اس معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی میں کردار ادا کر سکیں۔ بقول شاعر:
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد کامران کھاکھی کے کالمز
-
آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں
ہفتہ 19 جون 2021
-
ہماری کوئی غلطی نہیں
بدھ 16 جون 2021
-
بدلا ہے خیبر پختونخواہ
بدھ 9 جون 2021
-
روک سکو تو روک لو۔۔!
ہفتہ 5 جون 2021
-
کوئی بھوکا نہ سوئے
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
خدمت آپ کی دہلیز پر
جمعرات 22 اپریل 2021
محمد کامران کھاکھی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.