تحفط بنیاد اسلام بل کیوں منظور ہوا

بدھ 5 اگست 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

بانیان پاکستان نے پاکستان بنانے سے پہلے پاکستان بنانے کا مقصد واضح کردیا تھا ، علامہ اقبالؒ نے ایک مضمون تحریر کیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کو توڑنا اور اس کے اقتدار کو ختم کرنا ہم پر فرض ہے لیکن آزادی سے ہمارا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم آزاد ہوجائیں بلکہ ہمارا اولین مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائیں ، اس لئے میں ایسی حکومتوں کے بارے میں رائے نہیں دے سکتا جن کی بنیاد انہی اصولوں پر ہو جن پر انگریز حکومت قائم ہے ، ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل کو قائم کرنے کا کیا معنیٰ ، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان مکمل نہ سہی لیکن ایک بڑی حد تک دارالسلام بن جائے ، لیکن اگر آزادی ہند کا یہ نتیجہ ہو جیسا کہ دارالکفر ہے یا اس سے بھی بد تر ہوجائے تو ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا ، بولنا ، روپیہ خرچ کرنا ، لاٹھیاں کھانا ، جیل جانا ، گولیوں کا نشانہ بننا سب حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہوں ، پاکستان بنانے کے لئے مصور پاکستان کے یہ تصورات تھے لیکن بدقسمتی سے قوم کو پرفریب نعروں میں الجھا کر اصل مقصد سے دور کردیا گیا ، مقصد سے دور ہونا ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے ، ہم اپنے مسائل کیسے حل کریں اس کے لئے مجھے طیب اردوان کا یہ جملہ ذہن نشین ہوگیا کہ جمہوریت اسلامی نظام کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے ، اس لئے میں نے ہمیشہ جمہوریت کو سپورٹ کیا ہے ، لیکن پاکستان میں موجود دینی فکر کے لوگ آج تک جمہوریت کے بارے میں کنفیوژ ہیں اس میں دینی لوگوں اور جمہوریت کا قصور کم اور اُن سے ہاتھ کرنے والوں کا قصور زیادہ ہے ، جن لوگوں نے اسلام کا نام لے کر اپنی سیاست کی بنیاد رکھی انہیں چاہیئے تھا کہ اسلام آباد پہنچ کر بھی اسلام کے نفاذ کی عملی کوش کرتے لیکن انہوں نے اپنے گھر اور خاندان کے مفاد سے باہر کچھ نہیں دیکھا ، انہوں نے اپنے بھائی ، بیٹے  اور ہم زلف  کو اسمبلی اور اہم سرکاری عہدوں پر پہنچانا یا ڈپٹی کمشنر لگوانا ہی اسلام کی خدمت سمجھا جس کی وجہ سے اسلامی نظام کا نفاذ ایک خواب ہی بن گیا اور دینی لوگوں نے بھی یہ جان لیا کہ جمہوریت فقط اپنے پیٹ کی بھوک بجھا سکتی ہے باقی اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی  حالانکہ یہ غلط تصور ہے ، جمہوریت میں رہتے ہوئے اگر اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر درست سمت میں محنت کی جائے تو اس کے ثمرات مل سکتے ہیں ، جس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔

(جاری ہے)


آج کل کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ" تحفظ بنیاد اسلام بل کیوں منظور ہوا..؟"
کسی مکتبہ فکر اور جماعت کی حمایت کیے بغیر اگر غور سے دیکھیں تو تحفظ بنیاد اسلام بل بھی حقیقت میں کسی ایک طبقے اور مکاتب فکر کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ بل ہر پاکستانی کا خواب تھا ، ریاست پاکستان نے ہر مسلم اور غیر مسلم کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے ، اس بل میں لکھا ہے کہ انبیا کرامؑ ، آسمانی کتابوں ، اہل بیت رسولﷺ ، فرشتوں ، صحابہ کرامؓ ، امہات المومنینؓ اور مقدس شخصیات کی توہین جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کو 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 5 سال کی سزا ہوگی ، اب جس شخص کو ان میں سے کسی کی بھی توہین ، تضحیک اور تذلیل نہیں کرنی وہ اس بل کے حامی ہیں لیکن جن کی نیت میں فتور ہے ، بلکہ ان کی خود کی ویڈیوز موجود ہیں کہ تبرا ہماری بنیاد اور اثاثہ ہے تو پھر وہ اس بل کو قبول کیوں کریں گے ، اس لئے وہ شور مچا رہے ہیں ، پہلے کہتے تھے ہم گستاخی نہیں کرتے ، اب کہہ رہے ہم سے زبردستی رضی اللہ عنہ کہلوایا جا رہا ہے ، اس کے لئے سیدھی سی بات ہے کہ آپ نے اگر حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت عائشہؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ کو رضی اللہ عنہ نہیں کہنا تو ان کا تذکرہ ہی مت کرو کوئی مجبور نہیں کرے گا ، لیکن اگر ان کا ذکر کرو گے تو ان کا ذکر خیر اور بھلائی کے ساتھ ہی کرنے کی اجازت ہے یہی اس بل کا اصل مقصد ہے ، لیکن کچھ لوگ اس اصولی بات کو ماننے اور سمجھنے کے بجائے اس بل کے خلاف واویلا کر رہے ہیں اور سینہ زوری کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ بل انسانی حقوق کے خلاف ہے ، یہی باتیں کچھ لوگ توہین رسالتﷺ قانون کے بارے میں کرتے ہیں کہ یہ قانون اظہارآزادی رائے کے خلاف ہے ، دونوں طرف کے لوگ یہ بات خوب جان لیں کہ کسی کی بھی آزادی اس حد تک ہوتی جہاں اس کی وجہ سے دوسرے کی آزادی یا انسانی حقوق پامال نہ ہورہے ہوں ، اپنے نبیﷺ اور اُن کے پیاروں پر کسی کو نعوذباللہ تبرے کی اجازت دینا یہ ہمارے انسانی ، آئینی و اسلامی حقوق کی پامالی ہے ، اس لئے ریاست پاکستان بالخصوص پنجاب حکومت کا تحفظ بنیاد اسلام بل ایک تاریخی کارنامہ ہے ، اس میں چودھری پرویز الہی صاحب نے جو کردار ادا کیا ہے وہ نا قابل فراموش ہے ، چودھری پرویز الہی سمیت پنجاب اسمبلی کے تمام اراکین اسمبلی کو ساتھی سوشل میڈیا پر بھرپور خراج تحسین پیش کریں ، گورنر پنجاب بھی کسی دباو کو خاطر میں مت لائیں اور اس بل پر دستخط کر کے اس بل کو قانون بنا دیں کیونکہ یہ بل پاکستان میں قیام امن اور نفرتوں کے خاتمے کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، ہمیں پاکستان سے پیار ہے ، پاکستان کے علاوہ ہمارا کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے ، اس لئے اسے پرامن اور مستحکم رکھنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہم پرعائد ہوتی ہے ، الحمدللہ ظلم و ستم سہہ کر بھی اپنی اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں ، جو لوگ انتشار اور نفرتیں پھیلا رہے ہیں ان سے بھی یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم سب کے بچوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے ، کوئی اور ملک ہمیں قبول نہیں کرے گا جس کا تجربہ ہم سب نے کر لیا ہے اور کر بھی رہے ہیں ۔


جب وطن ہمارا پاکستان ہی ہے تو پھر اسے غیر مستحکم مت کریں ، اور براہ کرم پاکستان میں انتشار بھی مت پھیلائیں..!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :