سب پچھلی حکومت کا قصور ہے

جمعہ 22 جنوری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

بچپن سے سننے  اور  دیکھنے کو ملتا رہا ہے کہ جب بھی پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں اگر کچھ غلط ہوتا تو یہ بات زبان زدعام ہوجاتی کہ جو کروا رہا وہ امریکہ ہی کروا رہا ہے۔پھر وقت بدل گیا اور نئے پاکستان میں ہم آئے روز یہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں کہ پاکستان میں جو کچھ غلط ہو رہا ہے  وہ سب پچھلی حکومت کی وجہ سے ہورہا ہے۔


پچھلے دنوں پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا، ہمارے نئے پاکستان کے نئے نئے کھلاڑی وزراء بجائے کچھ دیر کے لئے خاموشی اختیار کرتے اور  متعلقہ محکموں کی طرف سے بجلی کی بحالی کے لئے کی جانے والی انتھک محنتوں کے ثمرات کا انتظار کرتے، شروع ہوگئے پچھلے حکومتوں کو کوسنے کے لئے،  پچھلی حکومتوں نے یہ نہیں کیا اور پچھلی حکومتوں نے وہ نہیں کیا جسکی وجہ سے آج پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا ہے۔

(جاری ہے)

پھر دوسرے دن کی محکمانہ تحقیقات کے بعد چنداہلکاروں کو انکی لاپرواہی اور ادارے کی مروجہ ھدایات (SOP)  پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے بجلی بریک ڈاؤن کا قصور وار ٹھہرا کر معطل کردیا گیا۔ویسے ہے نہ حیرانگی کی بات کہ نئے پاکستان میں قریبا پچھلے ڈھائی سال سے وہی پچھلی حکومتوں والا بجلی کا سسٹم چل رہا تھا اور کبھی بھی اس طرح کاشدید بریک ڈاؤن نہ آیا اورنہ ہی اتنا عرصہ نئے پاکستان میں کپتان کے کھلاڑیوں کو پتا چل سکا کہ پچھلی حکومتوں نے بجلی کے سسٹم کے لئے کچھ نہیں کیا۔


اب حال ہی میں باغوں اور پھولوں کا شہر لاہور جوکہ گندگی کے ڈھیر میں بدل گیا، حکومتی وزرا بے دھڑک ہوکر پریس کانفرس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ (ہماری قریبا ڈھائی سالہ اقتدار کے بعد)  لاہور میں صفائی ستھرائی کے بحران کی وجہ پچھلی حکومت ہے۔اور پچھلی حکومت نے صفائی ستھرائی کے معاملات میں رج کے کرپشن کی ہے۔  وزراء موصوف کا کہنے کا مطلب کہیں ایسا تو نہیں کہ     ”چونکہ ہم کرپشن نہیں کررہے اسلئے ہم لاہور شہر کی صفائی بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرپارہے“  اللہ کے بندوں آپ بھی تھوڑی کی بجائے رج کے کرپشن کرلو مگر لاہور کی صفائی کے معاملات کو تو ٹھیک کرلو۔

ویسے کیسی ہی حیرانی کی بات ہے کہ پچھلی حکومت رج کے کرپشن بھی کرتی تھی مگر کبھی بھی آج جیسی گھمبیر صورتحال کا سامنالاہوریوں کو نہیں کرنا پڑا۔اندازہ لگانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے دل لاہور میں اگر صفائی ستھرائی کے ایسے معاملات ہیں تو صوبہ پنجاب کے دیگر اضلاع کی کیا صورتحال ہوگی۔
نئے پاکستان میں آئے روز بجلی  اور گیس کے ریٹس بڑھائے جارہے ہیں، اگر کوئی غریب یا  امیربندہ ریٹس بڑھنے پر سوالات اُٹھائے تو جواب ملتا ہے کہ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہم کو ریٹس بڑھانے پڑھ رہے ہیں۔

یاپھر کپتان کے کھلاڑی یہ بتا کر پاکستانی قوم کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم پچھلی حکومتوں کے قرضے اتارنے کے لئے بجلی اور گیس پر لگنے والے ٹیکسوں کے ریٹس زیادہ کررہے ہیں۔ مگردوسری طرف ملکی تاریخ میں نیا پاکستان بننے سے پہلے لئے گئے قرضے ایک طرف اور نیا پاکستان بننے کے بعد لئے گئے قرضوں کودیکھیں تو ہر خاص وعام پاکستانی کی آنکھیں چکرا جاتی ہیں۔


پی آئی اے کا جہاز لیز کی رقم کی عدم ادائیگی کی بناء پر  ملائشیاء کے ایئرپورٹ پر تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بھی کھلاڑی پھر شروع ہوگئے کہ دیکھیں جی دیکھیں یہ جہاز تو پچھلی حکومت نے سنء 2015  میں لیا تھا، یعنی نہ پچھلی حکومت یہ جہاز لیز پرلیتی اور نہ ہی ملائیشیاء  میں جہاز کو تحویل میں لیا جاتا، اللہ کے بندوں کوئی آپ سے پوچھے کہ یہی جہاز نئے پاکستان کے قریبا ڈھائی سالوں سے اندرون و بیرون ملک مسافروں کو لے کر محو پرواز رہتا ہے اور ادارے کو کروڑوں کا ریوینو بھی دلوا رہا تھا اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ یہ پچھلی حکومت کی وجہ سے ہے۔


چینی کا بحران آیا اور اک اعلی سطحی کمیشن بھی بنا اور اس کمیشن کی روشنی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کیا ہیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں، ہاں مگر اتنا ضرور پتا ہے کہ چینی کے اس بحران اورقیمتوں میں ہوشربا اضافہ کو کنٹرول کرنے کی بجائے کپتان کے کھلاڑی یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ یہ سب کچھ مافیا کر رہا ہے اور پاکستان میں شوگر کی زیادہ تر فیکٹریاں پچھلی حکومت  کے حکمرانوں کی ہیں۔

اسکا مطلب یہ بھی ہوا کہ ماضی میں پچھلی حکومت کے حکمران کرپشن بھی کررہے تھے مگر عوام کو سستی چینی بھی مہیا کررہے تھے۔
یہ بھی خبریں گردش کررہی ہیں کہ حکومت پاکستان نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اک مرتبہ پھر چینی کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے، اک زرعی ملک جس کی چینی کو پرانے پاکستان میں برآمد کیا جاتا تھا اوربہت زیادہ زرمبادلہ کمایا جاتا تھا، آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گنے کی فصل کی کٹائی ابھی پچھلے ماہ میں ہوئی ہے اور ملک میں اک مرتبہ پھر چینی کی قیمتوں نے آسمان کی بلندیوں کا سفر شروع کردیا ہے۔

اک عام پاکستانی کرے تو پھر کیا کرے، جنکو شکایت لگانی ہے یا جن کے خلاف پرامن احتجاج کرنا ہے وہ نئے پاکستان کے کھلاڑی تو اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے یہ کہ کر بری ذمہ ہوجاتے ہیں کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا قصور ہے۔
ابھی پچھلے دنوں کپتان کے اک معاشی کھلاڑی پاکستانی قوم کو بتا رہے تھے کہ ''گزشتہ حکومت نے جان بوجھ کر ڈالر سستا رکھا''
کیا ہی اچھا ہوتا کہ معاشی کھلاڑی یہ بھی بتا دیتے کہ پچھلی حکومت نے جان بوجھ کر مہنگائی پر کنٹرول رکھا،  جان بوجھ کر ادویات مہنگی نہ ہونے دی،  جان بوجھ کر پٹرول سستا دیتے رہے اور جان بوجھ کر عوام کو ہسپتالوں میں ادویات فری دیتے رہے,جان بوجھ کر کسانوں کو سستی کھادیں دیتے رہے۔


کاش نئے پاکستان کے کھلاڑی پچھلی حکومتوں کا رونا رونے کی بجائے اصل توجہ اپنی اپنی وزارت کی طرف مرکوز کرلیتے تو شائد وطن عزیز میں اس طرح کے بحران پیدا ہی نہ ہوتے۔مگر کیا کریں نئے پاکستان کے وزراء کے رویے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ شائد انکو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ وہ اپوزیشن کی بجائے خود  حکمران ہیں، شائد یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں کے نزدیک تمام مسائل کا حل صرف اسی بات میں ہے کہ یہی بولتے رہیں کہ  ”سب پچھلی حکومت کا قصور ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :