آئین پاکستان میں کی گئی ترامیم

پیر 22 مارچ 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

آئین یعنی دستورکی تعریف بنیادی قواعد یا تسلیم شدہ نظائز کے ایک مجموعہ کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ جسکے مطابق ایک ریاست پر حکمرانی ہوتی ہے۔ درحقیقت ایک آئین ان قواعد کی تعریف بیان کرتا ہے جن پر ریاست کی بنیاد ہوتی ہے۔ بلکہ اس طریق کار کی بھی تعریف بیان کرتا ہے جسکے ذریعے ملکی قوانین بنتے ہیں۔سادہ الفاظ میں  ہم یہ کہ سکتے  ہیں کہ ریاستی امور کو چلانے کے قوانین کو آئین  یا  دستورکہا جاتا ہے۔

آئین تحریری یا غیر تحریری شکل میں ہو سکتا۔ جیسا کے امریکی آئین تحریری شکل میں ہے جبکہ برطانوی آئین کو غیر تحریری تصور کیا جاتاہے۔ پاکستانی آئین تحریری شکل میں ہے۔ جہاں تک پاکستان کی آئینی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ تاریخ اتنی روشن نہیں ہے۔ پاکستان کا وجود  اگست 1947  میں ہوا  جبکہ بدقسمتی سے پاکستان کا پہلا آئین  1956  میں سکندر مرزا نے  نافذ کیا۔

(جاری ہے)

  پاکستان کا شمار  دنیا کے ان بدقسمت ترین ممالک میں کیا جاسکتا ہے کہ جسکے  وجود میں آنے کے 9  سال تک ریاستی امور بغیر کسی دستور کے چلائے گئے، اور اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ یہ آئین  اپنے وجود کے ٹھیک 2  سال 1958   میں ملک میں مارشل لاء لگنے  بعد کالعدم قرار دے دیا گیا۔ 1962   میں پاکستان کا دوسرا آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذالعمل کیا جو کہ 1969 تک قائم رہا۔

پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین  ذالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں  1973  میں بنا جو کہ چند آئینی ترامیم کے ساتھ آج تک  نافذالعمل ہے۔آئین پاکستان  میں  / Schedules    07 Chapters ہیں  جنکو 12 Parts   میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور آئین پاکستان  کے آرٹیکلز کی تعداد 280   ہے جن میں پہلے 40   آرٹیکلزمیں  عوام کے حقوق،  اصول حکمت عملی یعنی حکومتی ذمہ داریوں کا ذکر ہے۔

آئین اک ایسی بنیادی دستاویز ہے کہ جو کسی ادارے  یا فرد کی ملکیت نہیں بلکہ یہ اک ایسی دستاویز ہے جسکو Public Property   بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اس دستاویز تک رسائی کے لیے کسی ادارے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے بنیادی حقوق کا عوام الناس کو جاننا بے حد ضروری ہے۔آئین پاکستان میں وقتا فوقتا تبدیلیاں یعنی ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔

آیئے اب اک  نظر آئین پاکستان میں ہونے والی ترامیم پر ڈالتے ہیں۔یہ تحریر ترامیم کی وجہ سے آئین پاکستان میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کا مکمل طور پر احاطہ تو نہیں کرے گی مگر یہاں اختصار کیساتھ ان ترامیم کی وجہ سے آئین پاکستان میں ہونے والی نمایاں تبدیلیوں کا احاطہ ضرور کرے گی۔پہلی آئینی ترمیم کا نفاذ 4  مئی 1974 کو ہوا، اس آئینی ترمیم کے تحت ”پاکستان کی حدود کی وضاحت کی گئی اور مشرقی پاکستان کے حوالہ جات کو ہٹا دیا“۔

دوسری آئینی ترمیم کا نفاذ 17 ستمبر1977 کو ہوا، اس آئینی ترمیم کے تحت ”ایک مسلمان کی تعریف کی اور احمدیوں کے اقلیت اور 'غیر مسلم' ہونے کی حیثیت سے اعلان کیا گیا“۔ تیسری آئینی ترمیم کا نفاذ18 فروری 1975  کو ہوا، اس آئینی ترمیم کے تحت ”احتیاطی نظربندی کی مدت میں توسیع کی گئی“۔ چوتھی آئینی ترمیم کا نفاذ 21  نومبر 1975 کو ہوا، اس آئینی ترمیم کے تحت  ”اقلیتوں کے لئے اضافی نشستوں کا حکم جاری کیا، اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو کسی بھی روک تھام کے تحت حراست میں لئے گئے کسی فرد کو ضمانت دینے کے اختیار سے بھی محروم کردیا۔

“۔ پانچویں آئینی ترمیم کا نفاذ5   ستمبر 1976 کو ہوا، اس آئینی ترمیم کے تحت ”ہائی کورٹس پر پابندی کا دائرہ وسیع کردیا“۔چھٹی آئینی ترمیم کا نفاذ  22  دسمبر 1976 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”ہائیکورٹ اور سپریم کے ججز کی ریٹائرمنٹ مدد کا تعین کیا گیا جس کے تحت جسٹس سپریم کورٹ 65 سال کی عمر میں اور ہائی کورٹ کے جج 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہوجائیں گے“۔

ساتویں آئینی ترمیم کا نفاذ 16 مئی1977 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے“۔آٹھویں آئینی ترمیم کا نفاذ 11  نومبر 1985 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”صدر کو متعدد اضافی اختیارات دے کر پاکستان کی حکومت کو پارلیمانی نظام سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کردیا“۔نویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ میں 1985 میں پیش کیا گیا مگر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوسکی، بہرحال اس ترمیم کے تحت ”شریعت قانون کو زمین کا اعلی قانون قرار دینے کا بل پیش کیا گیا۔

یہ بل سینیٹ کے ذریعہ منظور کیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے کبھی بھی قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہوسکا“۔ دسویں آئینی ترمیم کا نفاذ25   مارچ 1987 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے مابین وقفہ کی مدت مقررہ کر کے 130 دن سے تجاوز نہ کریں“۔ گیارھویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور نہ کروائی گئی، اس ترمیم کے تحت ”قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر نظر ثانی۔

یہ بل 1992 میں واپس لیا گیا تھا“۔ بارھویں آئینی ترمیم کا نفاذ1991 میں ہوا، اس ترمیم کے تحت ”3 سال کیلئے تیز ترین ٹرائل کورٹ بنائی“۔تیرھویں آئینی ترمیم کا نفاذ 1997 میں ہوا، اس ترمیم کے تحت’’پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے صدر پاکستان کے اختیارات کا خاتمہ کردیا گیا ’“۔چودھویں آئینی ترمیم کا نفاذ 3  جولائی 1997 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”ممبران پارلیمنٹ کو نااہل ہوجانے پر انہیں برخاست کرنا“۔

پندھوریں آئینی ترمیم1998 میں پیش کی گئی مگر اسکی منظوری پارلیمنٹ سے نہ  کروائی جاسکی، اس ترمیم کے تحت ”شریعت قانون کو ریاست کا اعلی قانون قرار دینے کا بل۔ جو کبھی منظور نہ ہوسکا“۔سولہویں آئینی ترمیم کا نفاذ 1999 میں ہوا، اس ترمیم کے تحت ”1973 کے آئین کے مطابق کوٹہ سسٹم کے لئے مقرر کردہ مدت میں 20 سے 40 سال تک اضافہ کیا گیا“۔سترویں آئینی ترمیم کا نفاذ 2003 میں ہوا، اس ترمیم کے تحت ”صدر کے عہدے سے متعلق معاملات اور تیرہویں ترمیم کے اثرات کو تبدیل کرنے میں تبدیلیاں کی گئیں“۔

آٹھارویں آئینی ترمیم کا نفاذ 8   اپریل 2010 میں ہوا، اس ترمیم کے تحت ”یکطرفہ طور پر پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا صدر پاکستان کا اختیار ختم کردیا۔ صوبوں کو مزید اختیار دیا۔ صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ (صوبہ سرحد) کا نام خیبر پختونخوا (کے پی کے) رکھ دیا گیا“۔ انیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ 22   دسمبر 2010  میں ہوا، اس ترمیم کے تحت ”سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں کی تقرری کے لئے فراہم کردہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیف انتخابی عہدیداروں کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے ممبروں کی تعداد میں ترامیم کی گئیں“۔

بیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ 14  فروری  2012 کو ہوا، اس ترمیم کے’منصفانہ انتخابات یقینی بنانا“۔  اکیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ7   جنوری   2015کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ’اے پی ایس پشاور حملے کے نتیجے میں، دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں کے جلد از جلد ٹرائل کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ’‘۔ بائیسویں ترمیم کا نفاذ 8  جون 2016 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”چیف الیکشن کمشنر کو ای سی پی کے اختیارات تفویض کردیئے گئے“۔

تیئسوی آئینی ترمیم کا نفاذ 7  جنوری 2017 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کے لئے 23 جنوری ترمیم 6 جنوری 2019 تک منظور کی گئی۔ 2015 میں، قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم منظور کی اور 2 سال کی مدت کے لئے فوجی عدالتیں تشکیل دیں۔ دو سال کی مدت 6 جنوری 2017 کو ختم ہوگئی تھی لہذا فوجی عدالتوں کو مزید 2 سال کے لئے 6 جنوری 2019 تک دوبارہ قائم کرنے کے لئے یہ 23 ویں ترمیم منظور کی گئی تھی۔

اس مدت کے اختتام پر تمام ترامیم کی میعاد خودبخود ختم ہوجائے گی“۔ چوبیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ22  دسمبر 2017 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ’وفاق کے یونٹس یعنی صوبوں  میں قومی اسمبلی کی نشستیں دوبارہ منسوخ کرنا اور انتخابی حکام کو پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کے عارضی نتائج کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی حدود کو اپ ڈیٹ یعنی نئی حلقہ بندیاں کرنے کی اجازت دینا“۔

پچیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ 31  مئی  2018 کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کریں“۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا نفاذ13  مئی 2019  کو ہوا، اس ترمیم کے تحت ”پاکستان کے قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی نشستیں 12 پر برقرار رہیں گی جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان کی نشستوں کو 16 سے بڑھا کر 24 کردیا گیا ہے“۔


انتہائی اہم نوٹ: آئین پاکستان میں درج کسی بھی آرٹیکل میں ترمیم کرنے کا طریقہ کار آئین پاکستان میں درج ہے، جس کے  مطابق آئینی ترمیمی بل کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظورکروانا لازمی ہے۔پاکستان کے تمام شہریوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ آئین اور قانون کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاص کریں۔کیونکہ بہت ہی مشہور مثل ہے کہ IGNORANCE OF LAW IS NO EXCUSE

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :