آئی ایم ایف کھیلنے کو مانگے اسٹیٹ بینک پاکستان

جمعرات 1 اپریل 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلے سے زیادہ خودمختاری دینے کے لئے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں ترمیم کے لئے حکومت وقت کی جانب سے مجوزہ تجاویز پر گزشتہ چند دنوں سے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پراک طوفان بھڑپاہے، سیاسی، سماجی، معاشی اور صحافتی برادری سے وابستہ ماہرین تجزیئے اور تبصرے کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کے نزدیک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے حد سے زیادہ خودمختاری آئی ایم ایف کے دباؤ پر کی جارہی ہے۔

جسکی بناء پر ملکی سلامتی اور سا  لمیت کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔کچھ تجزیہ کاروں نے یہ اس عمل کومغل سلطنت کے آخری بادشا ہ بہادر شاہ ظفر کی جانب سے محصولوں کی وصولی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کے مترادف قرار دیا ہے، مگر کچھ ماہرین کے نزدیک ایسا کرنے سے نہ صرف ریاست پاکستان کے مرکزی بینک پر حکومتی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگابلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان صحیح معنوں میں ملکی معیشت کے لئے آزادانہ فیصلے اور پالیسیوں کااعلان کیا کرے گا جو کہ ملکی معیشت کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوگا۔

(جاری ہے)

کچھ معاشی ماہرین مجوزہ ترامیم کو عہد حاضر کی ضرورت تصور کررہے ہیں۔کچھ کے نزدیک دنیا کے بہت سے ممالک میں انکے مرکزی بینک آزاد ہیں جسکی بناء پر انکی ملکی معیشت میں روز بروز ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر حکومت اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں کونسی ترامیم کرنے جارہی ہے کہ جسکی وجہ سے پاکستان میں اسوقت میڈیا پرسب سے زیادہ زیربحث موضوع یہی چل رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کے مطابق۔۔ا سٹیٹ بینک حکومت پاکستان کو ادھار نہیں دے گا لیکن اگرا سٹیٹ بینک میں سرمائے اور ذخائر منفی سطح پر گر جاتے ہیں تو وفاقی حکومت کو اسے ضروری رقم فراہم کرنا پڑے گی۔مجوزہ ترامیم کے تحت نیب، ایف آئی اے اور دوسرے وفاقی و صوبائی اداروں کو بینک کے ملازمین، ڈائریکٹرز، ڈپٹی گورنروں اور گورنر کو ان کے فرائض کی ادائیگی پر کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔

اسٹیٹ بینک کے قانون کے تحت ملک کی monetary  اور مالیاتی پالیسیوں کو مربوط رکھنے کے لیے ایک کوآررڈینیشن بورڈ ہوتا ہے تاہم ترامیم کے تحت اب گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ مجوزہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہو گا۔گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی اور مجوزہ قانون میں تین برس کی توسییع کی بجائے پانچ سال توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔

موجودہ قانون میں صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ذمہ داریاں نہ نبھانے پر گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت صدر بہت ہی سنگین غلطی پر، جس کا فیصلہ عدالت کر ے گی، گورنر کو ہٹا سکتا ہے۔موجودہ قانون کے تحت دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاوسنگ اور دوسرے شعبوں کے لیے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے تاہم ترامیم کے تحت اب حکومت کی جانب سے ایسے شعبوں کے لیے قرض کی فراہم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے کردار کا از سر نو تعین کیا گیا ہے جن میں داخلی طور پر مہنگائی اور مالیاتی نظام کو استحکام دینے کو اولیت دی گئی ہے جبکہ معاشی ترقی میں اس کی مدد کو فہرست میں آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم مثبت یا منفی؟میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے مختلف امور معیشت دانوں کی مختلف رائے ہیں جو ابھی تک میڈیا کے توسط سے سننے دیکھنے کو ملی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کے حق میں دلائل دیتے ہوئے حکومت پنجاب کے منصوبہ بندی، ترقی اور اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے یہ ترامیم متنازعہ بنائی جا رہی ہیں ورنہ ان ترامیم میں ایسی کوئی قباحت نہیں جس پر شور مچایا جائے۔ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہاکہ ا سٹیٹ بینک کا کردار مالیاتی نظام میں استحکام لانا، مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ کی نگرانی کرنا ہوتا ہے اور یہ ترامیم ان کے اس کردار کو زیادہ مضبوط بنا رہی ہیں۔

انھوں نے ترامیم کے تحت کسی حکومتی ادارے کو اسٹیٹ بینک کے کاموں پر ایکشن نہ لینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا یہ مقصد نہیں کہ احتساب نہیں ہو گا۔’بینک کا داخلی طور پر احتساب کا نظام ہو گا تاہم یہ نہیں ہو سکتا کہ سٹیٹ بینک کا کوئی بندہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ پر فیصلہ لینے سے اس لیے کترائے کہ اسے نیب کا خوف ہو۔مجوزہ تجاویز کی مخالفت کرنے والوں میں ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ان ترامیم کو منفی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خود مختاری کے نام پر ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

جب ا سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر میں کمی ہو گی تو حکومت کو اسے ہر صورت میں پیسے ادا کرنا پڑیں گے جس کے لیے اسے غیر ملکی قرضہ حاصل کرنا پڑے گا یعنی قرض کو ادا کرنے کے لیے مزید نیا قرض لینا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ نئے بورڈ میں حکومتی نمائندگی سرے سے موجود ہی نہیں ہو گی تو کیسے ملک کی زری اور مالیاتی پالیسی کو مربوط بنایا جائے گا۔انھوں نے کہا اسی طرح حکومت کا سٹیٹ بینک سے ادھار لینا بند ہو جائے گا اور اسے کمرشل بینکوں سے ادھار لینا پڑے گا جو مہنگا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا کہ ان ترامیم کے تحت ا سٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہو جائیں گے اور ان کے اقدامات کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جا سکتا، اسے خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ان ترامیم کے بعد حکومت کا کردار ختم ہو جائے گا اور اسٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو قرض ادا کرے گا۔

’کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے لوگوں اور انڈسٹری کو مراعاتی پیکج دیے، پاکستان نے بھی انڈسٹری کو مراعاتی پیکج دیا تاکہ معاشی سرگرمی میں اضافہ کیا جا سکے تاہم اب ایسا کوئی کردار سٹیٹ بینک ادا نہیں کرے گا۔‘ مزید ماہرین معیشت کی رائے کے مطابق آئی ایم ایف کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت حکومت ا سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خود مختاری دینے جا رہی ہے۔

اگرچہ 90 کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔

دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہو گا یعنی exchange rateکا استحکام جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔سٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی ترقی کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے جو معیشت کے ماہرین کے نزدیک ایک خطرناک منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی وزیر اعظم پاکستان کو 17 مارچ کو اک خط ارسال کرکے مجوزہ ترامیم پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات پراپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم سے اس معاملہ کا جائزہ لینے کی استدعا کی ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط اور دباؤ پر حکومت پاکستان پہلے ہی دو آرڈیننس جاری کرچکی ہے  ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سے 140 ارب روپے کی انکم ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سے عوام الناس پر بجلی کے بلوں میں مزید 150 ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا جائے گا۔یاد رہے بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ خودکشی کرلیں گے مگر آئی ایم ایف وغیرہ سے قرضہ نہیں لیں گے۔

مستقبل میں پاکستان شاید دنیا کی واحد ریاست ہوگی کہ جس کامرکزی ریاستی بینک ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہوگا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نام میں ”اسٹیٹ کا لفظ برائے نام ہی رہ جائے گا“۔دنیا کی کسی ریاست میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ یا ادارہ کے افراد کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہوں کیونکہ یہ یونیورسل قانون ہے کہ nobody should be above the law، لیکن یہاں تو اُلٹی گنگا بہانے کا پروگرام لایا جارہا ہے۔


مجوزہ ترامیم کے فائدے نقصان اپنی جگہ پر، توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ IMF کے ایماء پر کیا جارہا تو اس میں خیر کی توقع رکھنا انتہائی بے وقوفی ہی ہوسکتی ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبہ پر اسٹیٹ بینک ایکٹ میں مجوزہ ترامیم بارے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ”آئی ایم ایف کھیلنے کو مانگے اسٹیٹ بینک آف پاکستان“۔ اللہ کریم پاکستان کے حال پر رحم فرمائے، آمین ثم آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :