سرینا عیسیٰ بنام وزیر اعظم عمران خان

جمعہ 2 جولائی 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

مالی سال 2020-21 کے اختتامی دن میڈیا پر اک خط منظر عام پر آیا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی مسز سرینا قاضی نے پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان کو مخاطب کرکے ٹی وی پر مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا۔خط کے ابتداء میں مسز سرینا نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح حکومت کی جانب سے انکو  بار بار نوٹسز جاری کئے گئے۔

انکے والد کی وفات کے دن یعنی 25  جون 2020 کو ایف بی آر کی جانب سے ایک نوٹس جاری کیا گیا اور یہ بتلایا گیا کہ انہوں نے یہ نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح 8 نوٹس 25 جون 2021 کو جس دن انکے والد کی برسی تھی ان سے موصول کروائے گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ انکے شوہر پر ریفرنس ٹھیک اس وقت دائر کیا گیا جب انکے والد کا کینسر زدہ گردہ اور کینسر کی رسولی نکالنے کے لئے آپریشن ہورہا تھا۔

(جاری ہے)

مسز سرینا نے خط میں لکھا کہ بادی النظر میں یہ سب حربے انکے شوہر پر نفسیاتی دباؤ بڑھانے اور انکو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لئے گئے تھے۔مسز سرینا کے مطابق انکی فیملی کی مشکلات اُس وقت شروع ہوئیں جب قاضی فائز عیسیٰ نے مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر قانون کو 27 مئی 2021 کو لکھے گئے خطوط کا بھی تذکرہ کیا۔

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو خبردار کیا کہ ماضی کی طرح پیٹھ پیچھے کاروائی سے باز آجائیں،  لندن میں جائیدادیں خریدنے کے متعلق آپ مطمئن نہیں ہیں تو ٹی وی پر براہ راست میرا سامنا کریں۔مسز سرینا قاضی کے خط کے مندرجات کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگروہ لندن جائیدادوں کی خریداری سے مطمئن نہیں تو میرا سامنا کریں میں براہ راست نشریات میں اپنی آمدن، بچت اور منی ٹریل دکھاوں گی، آپ سے بھی توقع ہے کہ مناظرے میں آپ بھی ایسا ہی کریں گے، انہوں نے کہا کہ  وزیر اعظم عمران خان میں آپ کے جواب کا شدت سے انتظار کر رہی ہوں۔

انہوں نے وزیراعظم کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ براہ کرم میری پیٹھ پیچھے کاروائی کرنے سے باز آجائیں۔  انہوں نے اپنے سسر اور قائداعظم محمد علی جناح کے تحریک پاکستان کے دیرینہ ساتھ قاضی محمد عیسیٰ کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر یوٹیوبرز کی جانب سے کی جانے والی کردارکشی پر سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ قاضی محمد عیسیٰ کو صرف وہی غدار کہہ سکتے ہیں جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ ہمیں اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ ہم نے سرِعام اپنے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردئیے ہیں جس سے آپکو اور آپکے ساتھیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ آپ اور آپکی حکومت کے لوگ ٹیکس دیتے ہی نہیں یا بہت کم دیتے ہیں اور آپ نے اپنے بے تحاشا اثاثے بڑھنے کی وضاحت بھی نہیں دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں نہ صرف وزیراعظم عمران خان بلکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاداکبر، وزیر قانون فروغ نسیم،  اور صدر مملکت پر بھی سنگین الزامات لگائے بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں مرزا افتخارالدین نامی شخص سے قتل کی دھمکیاں دلوائی گئیں۔

انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپکی اور آپکی اتحادی حکومت کو یہ اچھا نہیں لگا کہ انہیں 12 مئی 2007 یاددلایا جائے جب کراچی کی گلیوں میں شہریوں کا بیدردی سے قتل کیا گیا۔ آپکو یہ بھی اچھا نہیں لگا کہ آپکو ڈی چوک پر 126 دنوں کی“ڈانس پارٹی”یاددلائی جائے۔سرینا عیسیٰ کا وزیراعظم کو لکھا گیا خط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکی فیملی کے خلاف گزشتہ تین سال سے چلنے والی سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں احتساب اور سوشل میڈیا پر جاری مبہم کردارکشی کی مہم کے ردعمل کی بظاہر عکاسی کررہا ہے۔

کیونکہ تین سال سے جاری اس مہم میں قاضی فیملی جس تکلیف، کوفت اور ذہنی دباؤ کا شکار ہورہی ہے۔ یقینا وزیراعظم کو لکھا گیا خط بھی اُسی فطرتی رد عمل کو ظاہر کررہا ہے۔کیونکہ یوٹیوب چینلز پر کچھ کم علم اور کم عقل لوگوں نے محسنِ تحریک پاکستان یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد اور قائداعظم محمد علی جناح کے بہت ہی قریبی ساتھی اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنوانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جناب قاضی عیسیٰ کو بھی حرف تنقید بنایا اور انکے کردار پر بہت ہی غلیظ الزامات لگائے، اسی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ کے خلاف بھی گاہے بگاہے نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔

  یہ سب کچھ انتہائی افسوسناک بھی ہے اور قابل مذمت بھی ہے۔ پاکستانی تاریخ اداروں کے درمیان باہمی اختلافات اور اختیارات کی رسہ کشی جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔قائد اعظم اور انکے ساتھیوں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، قاضی عیسیٰ جیسے بے لوث ساتھیوں کی انتھک محنت کے نتیجہ میں بننے والی اسلامی مملکت پاکستان اداروں اور صوبوں کے درمیان باہمی اختلافات، اختیارات کی غیر منصافانہ تقسیم کی بدولت اپنے وجود کے ٹھیک  24 سال بعددولخت ہوگئی اور بنگلہ دیش کی صورت میں اک نئی مملکت کا وجود عمل میں آیا۔

  وہ مسلمان جنہوں نے اپنی کھوئی ہوئی میراث  (ہزار سالہ حکمرانی) کو واپس حاصل کرنے کے لئے اکٹھے تگ و دو کی اور لگ بھگ سو دو سو سال تک انگریز سرکار سے برسرپیکار رہتے ہوئے نہ صرف اپنا حق حکمرانی حاصل کیا بلکہ ہندو کے مقابلہ میں اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے علیحدہ اسلامی مملکت حاصل کی، کتنی حیران کن اور افسوسناک  بات ہے کہ جنہوں نے کفار سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے سو دوسو سال تک باہمی سلوک،  اتفاق اور اتحاد سے مسلسل تگ و دو کی مگر افسوس کہ آزادی حاصل کرنے کے چند سالوں بعد ہی ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرسکے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات میں اک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی پاکستان کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انکو انکی آبادی کے لحاظ سے وسائل اور اختیارات کی تقسیم نہیں کی جارہی، اداروں کے درمیان آئے روز کے باہمی اختلافات اور حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنا بھی علیحدگی کے بہت بڑے اسباب تھے۔ اس تحریر میں مشرقی پاکستا ن سے بنگلہ دیش تک کے سفر کا تذکرہ کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی آنکھوں میں چبنے والی اسلامی ریاست پاکستان اداروں کے درمیاں تصادم کے نقصانات کو اب مزید کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی، اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام اداراے باہمی افہام و تفہیم کے تحت آئین پاکستا ن میں درج اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے آپس کے اختلافات کو بہ آحسن طریقہ سے حل کریں۔

کیونکہ کل تک پاکستان کو ہمیشہ سے اپنی مشرقی سرحد پر بھارت سے خطرات لاحق رہتے تھے، مگر امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو ساتھ دینے کی سزا یہ ملی کہ اب پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر بھی آئے روز دہشت گردی جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پاک فوج کے متعدد نڈر فوجی شہادت نوش فرما چکے ہیں۔پاک فوج کی بہت سی شہادتوں کی بدولت پاکستان نے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کا ازلی دشمن بلوچستان میں شرپسند افراد کی سرپرستی کر رہا ہے۔اور بلوچستان میں پائی جانے والی محرومیوں پر شرپسند عناصر کے ذریعہ سے بیرونی ممالک میں دنیا کے بڑے بڑے فورم پر پروپگنڈا کررہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت بھی بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں،  افغانستان سے انخلاء کے بعدامریکہ بہادر کی طرف سے بھی Do More  کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ریاست پاکستان کے تمام ادارے باہم متحد ہوکر اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔سیاسی عدم استحکام اور کرونا جیسی وباء کی بدولت پاکستان پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں احتساب کے نام پر جاری مہم میں تمام مخالف بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران پابند سلاسل ہوچکے، کوئی ضمانت پر رہا ہوا تو کسی کے خلاف احتسابی انکوائری بند ہوئی، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں احتساب کا شاذو نادر ہی کوئی مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہو۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو موجودہ سپریم کورٹ میں بلوچستان سے واحد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف چلنے والی مہم کی پرزور انداز میں نہ صرف مذمت کرنی چاہئے بلکہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے سدباب کے لئے فوری احکامات بھی جاری کرنے چاہئے۔اور اگر ہوسکے توجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی قسم کا مزید محاذ نہ کھولا جائے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت مہنگائی کی چکی میں پستی ہوئی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کمربستہ ہوکر دن رات ایک کردے۔اور یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ نے سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری قانونی جنگ دو مرتبہ جیت لی ہے۔اور سب سے اہم بات قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ نے رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی درج کروادیے ہیں۔

جنکا لنک بھی حاضر خدمت ہے۔
https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/press_release/Declaration_of_Assets_Mr_Justice_Qazi_Faez_Isa.pdf
وقت آگیا ہے کہ اب اس محاذ آرائی کو ختم کرنا ہوگا۔ ریاست کے تمام اداروں کو یکجان ہوکر اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اتفاق میں برکت ہے۔ اسی میں مملکت خدادا د اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاء ہے۔اللہ کریم ریاست پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :