وزیراعظم صاحب! گاڑیوں کیساتھ ساتھ چینی آٹا گھی بھی سستا کریں

پیر 12 جولائی 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

پچھلے ہفتے وفاقی وزراء خسرو بختیار اور فواد چودھری نے اک پریس کانفرنس کے دوران یہ خوشخبریوں بھری خبر بریک کی کہ وفاقی حکومت نے مقامی گاڑیوں کی قیمتوں میں 2 لاکھ 30 ہزار روپے تک کمی کا اعلان کر دیا ہے۔وزراء نے پریس بریفنگ میں کہا کہ آٹو انڈسٹری کو عالمی معیار کے مطابق بنائیں گے، مقامی گاڑیوں کی کھپت میں اضافہ سے نہ صرف ملکی گروتھ کا 6 فیصد کا ہدف حاصل ہوگا بلکہ 3 لاکھ 75 ہزار مقامی افراد کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔

وزراء نے گذشتہ سال اور آنے والے سالوں کی forecast کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال گاڑیوں کی کل پیداوار ایک لاکھ 64 ہزار رہی لیکن اگلے سال پیداوار 3 لاکھ یونٹس تک لے جائیں گے جبکہ مالی سال 2023-24 تک گاڑیوں کی کل پیداوار 5 لاکھ یونٹس تک لے جائیں گے کیونکہ مقامی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ مقامی پیداوار 5 لاکھ تک نہ ہونے سے گاڑیوں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں برآمد قابل عمل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

گاڑیوں کی پیداوار میں اضافہ سے 3 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا، اسی طرح موٹرسائیکلوں کی پیداوار بھی 26 لاکھ سے بڑھا کر 30 لاکھ تک ہوجانے کا امکان ہے جس سے 75ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔وفاقی کابینہ کی طرف سے نئی گاڑیوں کیلئے آٹو پالیسی کے نمایاں نکات بتاتے ہوئے وفاقی وزیر وں نے کہا آٹو سیکٹر میں مقامی اور برآمد شدہ گاڑیوں میں توازن برقرار رکھیں گے، پائیدار نمو کیلئے ملک کے انجینئرنگ اور مینوفیکچرنگ بیس کو بڑھانا ہوگا۔

انہوں نے بتایا ہائبرڈ اور الیکٹریکل وہیکل کیلئے ٹیکس میں کمی سمیت ملک میں تیار ہونے والی چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا ہے، چھوٹی اور بڑی گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں ردوبدل سے قیمتوں میں 2 لاکھ 30 ہزار روپے تک کمی ہوگی، 660 سے 850 سی سی گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ 5 ہزار، ایک ہزار سی سی گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ 42 ہزار، 1200 سی سی گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ 86 ہزار، ٹیوٹا کمپنی کی 1300سی سی گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ 25 ہزار روپے جبکہ ہنڈا سٹی کی قیمت میں بھی اتنی ہی کمی ہوگی۔

اسی طرح 1800 سی سی سے زائد گاڑیوں کی قیمت میں ایک لاکھ 70 ہزار جبکہ 2 ہزار سی سی سے زائد گاڑیوں پر 2 لاکھ 30 ہزار روپے تک کمی ہوگی۔وفاقی وزراء نے مزید بتایا کہ ہم نے گاڑیوں کی اپ فرنٹ ادائیگی کو 20 فیصد کر دیا ہے جبکہ چھوٹی گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی کر دی ہے، لیزنگ کے طریقہ کار کو بھی آسان بنایا جا رہا ہے تاکہ لوگ آسان ماہانہ قسط پر اپنی گاڑی حاصل کرسکیں۔

انہوں نے کہا پروڈکشن کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، ڈیمانڈ سپلائی کا گیپ اور اون منی کا مسئلہ نمایاں ہوسکتا ہے، اس کیلئے ہم نے طے کیا ہے کہ جو شخص گاڑی خریدے گا وہ گاڑی اسی کے نام پر رجسٹر ہوگی۔ اگر مینوفیکچرر نے 60 دن سے زیادہ تاخیر کی تو اس پر جرمانہ ہوگا۔ گاڑی کی آن لائن بکنگ ہوگی تاکہ ہر کسٹمر کو پتہ چل سکے کہ اس کی گاڑی مینوفیکچرنگ کے کس مرحلے پر ہے۔

یہ تو تھیں خوشخبریوں پر مبنی اطلاعات اور حکومتی اعلانات مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جس وقت وفاقی وزراء  پاکستانی قوم کو حکومتی اقدامات کی بدولت موٹر گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات کررہے تھے، عین اسی وقت مختلف کمپنیوں نے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بڑھا دیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق درجہ اول گھی کی قیمت میں 38 روپے فی کلو اضافہ ہوگیا جس کے نتیجے میں درجہ اول کا گھی 305 روپے سے بڑھ کر 343 روپے ہوگیا۔

درجہ دوئم کے گھی کی قیمت میں 15 روپے فی کلو اضافہ ہوگیا جس کے باعث درجہ دوئم کے گھی کے نرخ 270 روپے سے بڑھ کر 285 روپے ہوگئے۔ اسی طرح میڈیا رپورٹس کے مطابق تھوک مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 94 روپے سے بڑھ کر 100 روپے ہوگئی۔چینی کی پچاس کلو کی بوری 4700 روپے سے بڑھ کر 5000 روپے ہوگئی۔جب کہ اگلے چند روز میں ملک میں چینی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مقامی چینی پر سیلز ٹیکس وصولی کے لیے مقرر کردہ 60 روپے فی کلوگرام اور درآمدی چینی کے لیے 725 ڈالر فی میٹرک ٹن ویلیو ایشن ختم کردی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے نوٹیفیکیشن نمبر 895(i)/2021جاری کردیا ہے جس کے ذریعے ایف بی آر نے چینی پر سیلز ٹیکس کی رعایت 2016 میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن 812(i)/2016 منسوخ کردیاہے جس کے بعد آئندہ معمول کے مطابق چینی پر 60 روپے فی کلوگرام کی بجائے مارکیٹ پرائس پر سیلز ٹیکس وصول ہوا کرے گا۔

اس اقدام سے چینی پر سیلز ٹیکس بڑھنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔آٹے کی قیمت میں پہلے ہی ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔ اک زرعی ملک ہونے کے باووجود گندم چینی جیسی اجناس کو امپورٹ کرنا پاکستانیوں کے لئے اک لمحہ فکریہ بھی ہے۔سونے پہ سہاگہ بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت گیس اور بجلی کے بلوں کو جمع کروانے کے لئے زندہ رہ رہی ہے۔

یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آئندہ مالی سال 2021-22 کا وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد سے ملک میں مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد جون میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.28 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی اوسط شرح بڑھ کر 14.52 فیصد ہوگئی ہے۔ بجٹ کے بعد سے مہنگائی میں اضافے سے عوام دوست بجٹ کا حکومتی بیانیہ متاثر ہو رہا ہے۔

تباہ کن مہنگائی نے غریب عوام کی زندگیوں سے سکون چھین لیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب موٹر گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات سے عوام الناس خوش توہورہی ہے مگر دوسری طرف پاکستانیوں کی اکثریت وزیر اعظم عمران خان سے یہ کہنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ  وزیراعظم صاحب! ہمیں سستی گاڑی کے ساتھ ساتھ سستی چینی، آٹا، گھی،گیس، بجلی اور پٹرول بھی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :