پرسوناناں گراٹا

بدھ 22 جنوری 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

 ویاناکنونشن کے سفارتکاری آرٹیکل 9کے تحت کسی بھی میزبان ملک کواپنے ملک میں موجودکسی سفیرپر عدم اعتمادکی صورت میں فوری دستبردارو ملک بدرکرنے کاحق حاصل ہے اس ملک بدرسفیرکوسفارتی اصطلاح میں” پرسوناناں گراٹا“ (persona non grata)kmlkیعنی ناپسندیدہ شخص کہاجاتاہے سفیرAmbassadorکسی ایک ملک کی طرف سے کسی دوسرے ملک میں اعلی ترین سفارتی عہدے دارکوکہاجاتاہے جومیزبان ملک میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتاہے سفیرکی قیام گاہ کوسفارت خانہ کہاجاتاہے ویاناکنونشن کا آرٹیکل 41اور42سفارتکاروں کومیزبان ممالک کے قوانین کی پاسداری واحترام کاپابندکرتاہے۔


29اکتوبر2016ء کوپاکستان میں بھارتی سفارتکارسرجیت سنگھ کوپاکستان نے ناپسندیدہ شخص قراردے کرپاکستان چھوڑنے کاحکم دیاتھااسی طرح 23جنوری 2016ء کوصوبہ خیبرپختونخواہ کی اسمبلی نے باجوڑایجنسی میں ہونے والے امریکی ڈرون حملہ کی مذمت کرتے ہوئے امریکی سفیر”ریان سی کروکر“کوناپسندیدہ قراردینے کی متفقہ قراردادمنظورکی تھی تاہم دفترخارجہ نے اسے مستردکردیاتھاپاکستان میں موجودامریکی سفیرریان سی کروکرکے پاکستان میں بطورسفیرقیام کے دوران بہت سے ڈرون حملے ہوئے جنہیں پاکستان کی داخلی خودمختاری کے خلاف تصورکرتے ہوئے اس وقت سب سے بڑااحتجاج جوریکارڈکیاگیاوہ امریکی سفیرکو”پرسوناناں گراٹا“قراردینے کی متفقہ قراردادتھی لیکن اس کے باوجودانہیں ناپسندیدہ شخص قرارنہ دیاجاسکا آخراس کی کیاوجہ تھی ؟تواس کے لئے ہمیں امریکہ کی سفارتی تاریخ کامطالعہ کرناہوگاامریکہ کی تاریخ میں ریان سی کروکرجیساغیرمعمولی ذہین ،دوراندیش اورٹھنک ٹینکس سفیرنہیں آیا،کروکرکی پیشہ وارانہ قابلیت ولیاقت اوراہمیت کااندازہ درج ذیل امورسے لگایاجاسکتا ہے کہ سابق امریکی صدرجارج ڈبلیوبش انہیں ”لارنس آف عریبیہ“ کالقب دیتے تھے اورکروکرکی پیشہ وارانہ خدمات کے اعتراف میں انہیں سب سے اعلی عہدے ”کیرئیرایمبسڈر“کاسفارتی درجہ بھی دیا،امریکہ کے فارمرسیکرٹری آف سٹیٹ کالن پال نے کہاتھاکہ one of our very best foreign service officers، اورامریکی جنرل ڈیوڈپیٹرئیٹس نے کہاکہ مجھے فخرہے کہ میں کروکرکی ملٹری میں ہوں “۔

(جاری ہے)

71سالہ ریان سی کروکرمشرق وسطی کے انتہائی تجربہ کارامریکی سفارتکاررہ چکے ہیں جوعراق ،پاکستان ،کویت ،لبنان،شام ،افغانستا ن میں امریکی سفیرکے طورپرخدمات سرانجام دے چکے ہیں وہ امریکی صدربل کلنٹن کے دورحکومت کے دوران لبنان میں 1990تا 1993ء ، کویت میں 1994تا1997ء جبکہ شام میں1999 ء تا2001 ء سفارتکاررہے اس کے بعدجارج ڈبلیوبش کے دورحکومت کے دوران 2002ء میں کروکرکوافغانستان میں سفیرمقررکردیاگیا طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعدکابل کے امریکی سفارت خانے میں عارضی سفیرکے طورپرکام کرتے رہے ۔

 2004 تا2007پاکستان اور 2007 تا2009 عراق میں سفارتکاررہے اورپھر 2011ء میں ایک مرتبہ پھرافغانستان میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور فارن سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعدصدرباراک اوبامہ نے انہیں دوبارہ افغانستان میں امریکی سفیرمقررکردیاجہاں 2012ء تک وہ بطورسفیررہے ۔
بطورسفیرتقرری سے قبل انہیں ایک لمباعرصہ مشرق وسطی کے چندممالک میں ٹھہرایاگیا،امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد1972میں فارسی زبان میں مہارت کے بعدایران کے شہرخرم میں واقع امریکی قونصل خانہ میں کروکر کاتقررہوابعدازاں1974ء میں دوحہ قطرمیں بطورمعاشی تجارتی آفیسرتقررہوا1978 میں تیونس کے فارن سروس انسٹی ٹیوٹ آف عریبک سکول میں 20 ماہ کاپروگرام مکمل کرنے اورعربی زبان میں غیرمعمولی مہارت حاصل کرنے کے بعدعرا ق کے شہربغدادمیں امریکی مفادات کے سیکشن میں اقتصادی تجارتی حصہ کے چیف رہے،1981تا 1984بیروت لبنان میں چیف پولیٹیکل سیکشن کے عہدے پربھی فائزرہے، کروکرقطر،ایران ،اورمصرمیں بھی اہم سفارتی عہدوں پرفائزرہ چکے ہیں۔

1998میں شام میں جب کہ وہ وہاں سفیرتھے تواس دوران ان کی رہائش گاہ کے قریب پمب بلاسٹ ہوالیکن وہ محفوظ رہے ،9/11کے بعدکروکرسمیت کچھ سینئرامریکی عہدیداروں نے ایرانی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ جینیوامیں ایک خفیہ میٹنگ کی جہاں کروکرنے اپنے ایرانی ہم منصبوں کے ساتھ القاعدہ کے کارکنوں کوپکڑنے اورطالبان حکومت سے افغانستان میں مقابلہ کرنے میں تعاون بارے معاہدے کیے۔

اسی طرح انہوں نے کمانڈرجنرل ڈیودپیٹرئیس کیساتھ عراق میں ملکرفوجی انخلاء کاراستہ ہموارکیا۔
امریکی سفیرکروکرنے مشرق وسطی میں ایک طویل المیعادحکمرانی کی راہ ہموارکرنے کے لئے پراکسی وارمیں مرکزی مہرہ کاکرداراداکیاعراق ،لبنان ،شام اوردیگرعرب ممالک میں بالترتیب کروکرکاسفیرتقررایک وسیع المیعاد پلاننگ کاثبوت ہے جس کے نتیجہ میں وہاں کی داخلی صورت حال کوقابوکرنے اورمقامی حکومتوں کوامریکی آشربادمیں باہم دست وگریبان کرنااورایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑاکرکے خاموش تماشائی بن کرتباہی سے لطف اندوزہوناشامل تھاکروکرنے مشرق وسطی میں عرب ممالک اورایشیاء میں پاکستان ،ایران اورافغانستان کی مقامی زبانوں میں مہارت حاصل کرکے امریکی مفادات کوسرَکرنے کے لئے ایڑٰ ی چوٹی کازورلگایا اوروہ اپنے مشن میں بھرپورکامیاب لوٹاعراق اوراس سے ملحقہ عرب ممالک میں شیعہ سنّی فسادات کے ذریعہ سے مسلم ممالک کی وحدت کوپاراپاراکرنااورستم بالائے ستم امت مسلہ کے غیورونڈرکہلانے والے لیڈراسلام کی بجائے اپنی سلطنت وحکومت کوعروج ووسعت دینے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے چلے جارہے ہیں ۔

امریکہ جدیدٹیکنالوجی اورایٹمی ہتھیاروں سے اگرچہ لیس ہے لیکن اس کی سب سے بڑی طاقت اس کی مضبوط خارجہ پالیسی اوردوراندیش سفارت کاری ہے جس کی بدولت وہ پراکسی وارسے پوری دنیامیں اپنی اجارہ داری کی دھاک بٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کے باالمقابل اسلامی دنیاکی خارجہ پالیسی وسفارتکاری فقط چندافرادکے ذاتی مفادات کی تسکین کانام ہے جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی ووسعت نظری معدوم ہے جس کے نتیجہ میں آج اسلامی دنیاکی طاقت مختلف حصوں میں تقسیم ہے اوراپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی تیسری طاقت کی باج گزاراورمحتاج ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :