چاہئے کو لغت سے نکال دیجئے

ہفتہ 14 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

میری طرح آپ نے بھی یہ بات محسوس کی ہوگی کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان اکثر اپنی تقریر میں ریاست مدینہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام کی حفاظت اور فلاح بہبود کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔ریاست مدینہ میں جیسے عوام کو تحفظ حاصل تھا ویسے ہی پاکستانی لوگوں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔اور ان کے لئے ایسے مواقع مہیا کئے جائیں گے کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو سکیں اور کسی کے محتاج نہ ہوں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک عرصہ بعد ہمیں محب وطن اور مخلص وزیر اعظم ملے ہیں جو دل سے چاہتے ہیں کہ ملک پاکستان بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے،لیکن جب ہم عملی طور پر ملک کی صورت حال دیکھتے ہیں تو جرائم میں اضافہ،اداروں کی کرپشن،پولیس کا عوام کے ساتھ ناروا سلوک،مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے تو دل خون کے آنسو روتے ہوئے کہتا ہے کہ خان صاحب ہنوز دلی دور است۔

(جاری ہے)

اگر واقعی وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی ریاست مدینہ جیسے اصولوں پر کاربند ہوجائے تو پھر وہ اقدامات جو پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے یثرب کو مدینہ بنانے میں ہنگامی بنیادوں پر اٹھائے ایسے قوانین کا اطلاق پاکستان میں بھی ناگزیر کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہی ملک ایک فلاحی اور صحیح معنوں میں اسلامی ملک بن سکتا ہے۔اگر ہم اپنے وطن سے مخلص ہو جائیں تو پھر ہمیں ضخیم آئین کی ضرورت نہیں صرف یہ ہی کافی ہوگا کہ قرآن و سنت ہمارا آئین ہے۔


خان صاحب اگر واقعی آپ خلوص نیت سے پاکستان کو ریاست مدینہ کی شکل دینا چاہتے ہیں تو حضرت عمر کے نظام عدل کی ایک جھلک کا اطلاق ہی کافی ہوگا کہ جس میں انہوں نے ایک گورنر کو تعینات کرتے وقت پوچھا تھا کہ اگر تم چور کو پکڑو تو کیا سزا دوگے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا،جواب میں حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر بھوک کی وجہ سے کسی نے چوری کی تو میں تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گا۔

اگرچہ عمران خان نے اس کی مثال پیش کرنے کی ایک کوشش ضرور کی تھی کہ اپنے ہی وزرا کو کارکردگی نہ دکھانے پر انہیں ان کے قلمدان سے فارغ کردیا لیکن کیا ہوا کہ ایک در بند کر کے دوسرا کھول دیا گیا یعنی انہیں کسی اور وزارت کا قلمدان سونپ دیا گیا،اگر یاد ہو کہ اسد عمر کو وزارت سے ہٹا کر اسی وزارت سے متعلقہ ایک اور عہدہ پر بٹھا دیا گیا ،مقصد اس وضاحت کا یہ تھا کہ خان صاحب ٹوپیاں بدلنے سے نظام نہیں بدلے گا،نظام بدلنے کے لئے سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا،اور سوچ تب بدلے گی جب حضرت ابوبکر کا سا خلوص،حضرت عمر جیسا نظام عد ل ،حضرت عثمان جسیی سخاوت اور حضرت علی  جیسی شجاعت کا عملی مظاہرہ نہ کیا جائے گا۔

وگرنہ سابقہ حکمرانوں کی طرح ہم بدلیں گے،ہونا چاہئے یا کریں گے کے چکر میں آپ بھی پانچ سال گزار کر تاریخ کی کتابوں کا حصہ بن جائیں گے۔
بابا جی اشفاق احمد نے ایک بار بیان کیا تھا کہ جب میں چین گیا تو بڑی مشکل سے چیئرمین ماؤ سے ملاقات کا وقت مل سکا اور وہ بھی صرف پانچ منٹ،کیونکہ ان کی مصروفیت ہی ایسی تھی کہ پانچ سے زیادہ منٹ کا وقت دینا ان کے لئے انتہائی مشکل تھا وہ الگ بات کہ میں نے انہیں باتوں میں لگا کر اسے پندرہ منٹ کی طوالت میں بدل لیا،تاہم اس دوران ماؤ مسلسل اپنی گھڑی پر نظر رکھے ہوئے تھے بالآخر انہوں نے مجھے کہہ ہی دیا کہ اب مجھے کسی میٹنگ کے لئے جانا ہے اور آپ طے شدہ وقت بھی ختم ہو چکا ہے تو اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں نے ان سے ایک آخری سوال پوچھا کہ سر آپ کا ملک 1949 میں مکمل آزاد ہوا جبکہ پاکستان آپ سے بھی دو سال قبل انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہو چکا تھا پھر بھی معاشی ترقی میں ہم چائنہ سے کہیں پیچھے ہیں آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے،انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی لغت میں سے ایک لفظ”چاہئے“کو نکال دیا ہے یعنی ملک میں سڑکیں بننی چاہئیں،تعلیمی ترقی ہونی چاہئے،فلاح وبہبود ہونی چاہئے،یہ کام ہونا چاہئے وہ کام ہونا چاہئے وغیرہ،ہم نے اس لفظ کو نکال کر”کردو“ کو ڈال دیا ہے یعنی انفراسٹکچر مضبوط ہونا چاہئے نہیں بلکہ کردو،معاشی ترقی ہونی چاہئے نہیں بلکہ ایسے اقدامات کرو کہ ترقی ہوجائے۔

اور یہی ہماری ترقی کا راز بھی ہے۔
اب ذرا پاکستان کی معاشی و معاشرتی ترقی کا بھی اندازہ لگا لیں کہ وزرا ہر منصوبہ کے بارے میں کہتے ملیں گے کہ ہم یہ کام کریں گے،وہ کریں گے،ایسا کرنا چاہئے ،ویسا کرنا چاہئے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرے گا کون؟حکومت وقت ہی ہمیشہ فلاح وترقی کے کام کیا کرتی ہے تو پھر ایک منصوبہ کا اعلان کرکے اسے پایہ تکمیل پہنچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے تو کون سا ایسا کام ہے جو نہیں ہو سکتا،دیوار چین بن سکتی ہے،اہرام مصر اور پیترا جیسی عمارتیں تعمیر ہو سکتی ہیں تو پاکستانی کیوں ایسے کام نہیں کر سکتے۔

ہم تو وہ ہیں جو پہاڑوں کوزمیں بوس اور سمندروں کا سینہ چیر سکتے ہیں بس ذرا ایک لیڈر ایسا درکار ہے جو اس قوم کو ایک پرچم تلے جمع کر سکے ،یہ امید اب باندھی جا رہی ہے کہ عمران خان ایسا کریں گے،لیکن کب؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی امید پر پاکستانیوں نے انہیں اپنا وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔خان صاحب ایسا نہ ہو کہ پانچ سال امید پر ہی گزر جائیں۔اس بیمار قوم کا مسیحا بنیں اور ملک کو ایسی شاہراہ پر ڈال دیں کہ ترقی ہماری منزل ہو۔انشا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :